سوشل میڈیا پر آئینِ ہند کے معمار بی آر امبیڈکر سے متعلق ایک دعویٰ وائرل ہو رہا ہے۔ یوزرس دعویٰ کر رہے ہیں کہ آئینِ ہند کے معمار بی آر امبیڈ کر نہیں بلکہ بین راؤ تھے۔ ہیشٹیگ #آئین_معمار_BN_راؤ کے تحت یوزرس نے اپنے اپنے انداز میں دعویٰ کیا کہ حقیقت میں بی این راؤ تھے آئین کے معمار، مگر ہمیں پڑھایا گیا کہ آئین کے معمار بابا صاحب امبیڈکر ہیں۔
پرگیہ ترپاٹھی نامی ایک ویریفائیڈ یوزر نے ٹویٹ کیا،’ہمیں امبیڈکر پڑھایا گیا لیکن در حقیقت #آئین_معمار_BN_راؤ تھے‘۔
آرکائیو ورژن لنک
اودھیش کمار مشرا نے کتاب کے ایک صفحے کی تصویر کو کیپشن دیا،’ریسرچ میں آئین کا یہ پیج ملا۔ #آئین_معمار_BN_راؤ ‘
ہیمیندر ترپاٹھی نے بھی وہی پیج شیئر کرتے ہوئے لکھا،’اب وہ کہیں گے کہ یہ ثبوت برہمنوں نے فوٹو شاپ کے ذریعے بنایا ہے…#آئین_معمار_BN_راؤ‘
شُبھم شکلا نے لکھا،’#UnknownHistor دستور ساز اسمبلی کی میٹنگ میں کھڑے ہو کر امبیڈکر نے کہا – آئین سازی کا جو سہرا میرے سر باندھا گیا ہے، در حقیقت اس کا مستحق میں نہیں ہوں۔ یہ سہرا بی این راؤ کو جاتا ہے، جنھوں نے ڈرافٹنگ کمیٹی کے زیر نظر آئین کا ایک سچا مسودہ تیار کیا۔#آئین_معمار_BN_راؤ‘۔
ان کے علاوہ فیس بک سمیت کئی دیگر سوشل میڈیا یوزرس نے بھی اسی طرح کے دعوے کیے ہیں۔
فیکٹ چیک
وائرل دعوے کی جانچ-پڑتال کے لیے ہم نے گوگل پر کچھ مخصوص کی-ورڈ کی مدد سے ایک سمپل سرچ کیا۔ ہمیں مختلف میڈیا ہاؤسز کی جانب سے پبلش کئی آرٹیکل/رپورٹس ملے۔
دی پرنٹ ہندی کی جانب سے سرخی،’ڈاکٹر امبیڈکر کو آئینِ ہند کا معمار کیوں کہا جاتا ہے؟‘کے تحت پبلش ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 26 نومبر 1949 کو دستور ساز اسمبلی نے آئین کے اس مسودے کو قبول کیا جسے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی صدارت میں ڈرافٹنگ کمیٹی نے تیار کیا تھا۔ اسی شکل میں آئین 26 جنوری، 1950 کو نافذ العمل ہوا اور ہندوستان ایک جمہوری ملک بنا۔
وہیں دستور ساز اسمبلی کے بارے میں انٹرنیٹ پر سرچ کرنے پر جو معلومات سامنے آئی، وہ وکی پیڈیا پیج پر دی گئی ٹائم لائن کے مطابق کچھ اس طرح ہے:
- 6 دسمبر 1946: دستور ساز اسمبلی کا قیام (فرانسیسی رواج کے مطابق)۔
- 9 دسمبر 1946: پہلا اجلاس کانسٹی ٹیوشن ہال (اب پارلیمنٹ ہاؤس کا سینٹرل ہال) میں منعقد ہوا۔ پہلی تقریر کرنے والے پہلے شخص جے بی کرپلانی تھے، سچیدانند سنہا عبوری صدر بنے۔ (مسلم لیگ نے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔)
- 11 دسمبر 1946: راجندر پرساد کو دستور ساز اسمبلی نے اسپیکر مقرر کیا۔ ان کے علاوہ ایچ سی مکھرجی بطور نائب صدر اور بی این راؤ کو آئین کے قانونی صلاح کار کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔
- 29 اگست 1947: بی آر امبیڈکر کو دستور ساز اسمبلی کی ڈرافٹنگ کمیٹی (مسودہ ساز انجمن) کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا، جس کے دیگر چھ اراکین منشی محمد سعد اللہ، اَلادی کرشناسوامی ائیر، این گوپال سوامی ائینگار، کھیتان اور مِتَّر تھے…
دستور ساز اسمبلی میں بھارتی جمہوریت کی مقدس کتاب؛ آئین کو پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکر نے وقار اور انکسار کے ساتھ اپنی آخری تقریر میں اتنے کم وقت میں اتنا مکمل اور مفصل آئین تیار کرنے کا سہرا اپنے ساتھیوں کے سر باندھا۔ لیکن پوری آئین ساز اسمبلی اس حقیقت سے واقف تھی کہ یہ ایک عظیم قائد کی محبت اور اپنے ساتھیوں کے تئیں انکسار کے ساتھ ممنون ہونا ہے۔
دی پرنٹ ہندی کی جانب سے پبلش آرٹیکل میں دستور ساز اسمبلی کی بحث، حصہ-7، صفحہ-231 کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ_ امبیڈکر آئین کی مسودہ ساز کمیٹی کے چیئرمین تھے، جس کی ذمہ داری آئین کا تحریری مسودہ پیش کرنا تھی۔ اس کمیٹی میں کل 7 ممبران تھے۔ آئین کو حتمی شکل دینے میں ڈاکٹر امبیڈکر کے رول پر روشنی ڈالتے ہوئے، آئین کی مسودہ ساز کمیٹی کے رکن ٹی ٹی کرشنماچاری نے نومبر 1948 کو دستور ساز اسمبلی کے سامنے کہا: ممکنہ طور پر ایوان اس بات سے بہ خبر ہے کہ آپ نے (ڈرافٹنگ کمیٹی میں) جن سات اراکین کو نامز کیا ہے، ان میں ایک نے ایوان سے استعفیٰ دے دیا ہے اور ان کی جگہ دوسرے شخص آ چکے ہیں۔ ایک رکن کی اس دوران موت ہو چکی ہے اور ان کی جگہ کوئی نیا رکن نہیں آیا ہے۔ ایک رکن امریکہ میں تھے اور ان کی جگہ پُر نہیں کی گئی۔ ایک دیگر شخص سرکاری امور میں الجھے ہوئے تھے اور وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے تھے۔ ایک دو شخص دہلی سے بہت دور تھے اور صحت کی ممکنہ وجوہات سے کمیٹی کی کاروائیوں میں حصہ نہیں لے پائے۔ سو کُل ملا کر یہی ہوا ہے کہ اس ٓٓئین کو لکھنے کا بوجھ ڈاکٹر امبیڈکر کے اوپر ہی آ پڑا ہے۔ مجھے اس بات پر کوئی شبہ نہیں کہ ہم سبھی کو ان کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ انہوں نے اس ذمہ داری کو اتنے قابل ستائش ڈھنگ سے انجا دیا ہے۔
اس آرٹیکل میں ایک جگہ اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ سوال اٹھتا ہے کہ دستور ساز اسمبلی کے زیادہ تر اجلاس میں اوسطاً 300 اراکین موجود رہے اور سبھی کو آئین سازی میں یکساں حقوق حاصل تھے، تو آخر کیوں ڈاکٹر امبیڈکر کو ہی آئین کا کلیدی معمار کہا جاتا ہے؟
معروف ماہر عمرانیات (شوسل سائنٹِسٹ) پروفیسر گیل آمویٹ کے حوالے سے دی پرنٹ کے زیر نظر رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ آئین کا مسودہ تیار کرتے وقت اکثر متنازعہ مسائل پر گرما گرم بحث کی جاتی تھی۔ ان تمام مسائل کے سلسلے میں امبیڈکر نے بحث کو جہت دی، اپنے خیالات کا اظہار کیا اور مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔
حقیقت یہ ہے کہ بابا صاحب امبیڈکر ان چند افراد میں سے ایک تھے جو ڈرافٹنگ کمیٹی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ باقی 15 کمیٹیوں میں ایک سے زائد کمیٹیوں کے رکن تھے۔ دستور ساز اسمبلی کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ان کا انتخاب ان کی سیاسی اہلیت اور قانون کی مہارت کے سبب ہوا تھا۔
آزادی، مساوات، بھائی چارہ، انصاف، قانون کی حکمرانی، قانون کی نظر یکساں برابری، جمہوری عمل اور مذہب، ذات-پات، جنس اور دیگر کسی بھی تفریق و امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کے لیے موقر زندگی آئینِ ہند کا فلسفہ اور آئیڈیل ہے۔ انہوں نے ان الفاظ کے مضمرات کو ہندوستانی معاشرے میں عملی طور پر نافذالعمل کرنے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کی۔ اس کی چھاپ آئینِ ہند میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر آئینِ ہند کی طاقت اور حدود سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اس تناظر میں انہوں نے کہا تھا کہ آئین کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار بالآخر ان لوگوں پر ہوگا جن کے پاس حکومت کرنے کی ذمہ داری ہے۔ وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے کہ آئین نے سیاسی مساوات تو قائم کر دی ہے لیکن سماجی اور معاشی مساوات کا حصول ابھی بھی باقی ہے جو سیاسی مساوات کو برقرار رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔
جون 1953 میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر قانون بی آر امبیڈکر نے واضح طور پر کہا تھا کہ_ ’یہاں (ہندوستان میں) جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ یہاں کا سماجی نظام پارلیمانی جمہوریت کے فارمیٹ سے میل نہیں کھاتا‘۔
نتیجہ:
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ بی این راؤ دستور ساز اسمبلی کے صلاح کار تھے جبکہ امبیڈکر نے نہ صرف پورے آئین کی جہت کا تعین کیا بلکہ ڈارفٹنگ کمیٹی (مسودہ ساز کمیٹی) کے چیئرمین (سربراہ) ہونے کی حیثیت سے اسے لکھا بھی تھا، جیسا کہ ڈرافٹنگ کمیٹی کے رکن ٹی ٹی کرشنماچاری نے اعتراف کیا تھا، اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: آئینِ ہند کے معمار بی آر امبیڈکر نہیں، بی این راؤ تھے
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: گمراہ کن