قطب مینار ایک تاریخی عمارت ہے، جو اب ثقافت کے نام پر انتہا پسندی سے متاثر لڑائی جھگڑوں کیے نرغے میں ہے۔ اس حوالے سے سماج اور سماج کا آئینہ دار، سوشل میڈیا پر طرح طرح کے دعوے کیے جاتے ہیں۔
کوین آف جھانسی نامی یوزر نے قطب مینار کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ’قطب مینار در اصل وشنو استمبھ، لال گھیرے میں جو ادھورا مینار نظر آ رہا ہے وہ علائی مینار ہے۔ علاء الدین خلجی اسے وشنو استمبھ سے دوگنا اونچا بنانا چاہتا تھا لیکن 24 فٹ ہی بنا سکا۔ سلطان اسے دیکھ کر بھروسہ ہو گیا ہوگا آپ کو قطب مینار قطب الدین نے بنوائی ہوگی‘۔
ٹویٹ آرکائیو ورژن لنک
اس تناظر میں، مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر طرح طرح کے دعوے سے بھرے ہوئے ہیں۔
فیکٹ چیک:
مندرجہ بالا دعوے کی جانچ-پڑتال کے لیے DFRAC ٹیم نے گوگل پر کچھ مخصوص کی-ورڈ کی مدد سے ایک سمپل سرچ کیا ہے۔ ہمیں بی بی سی ہندی کا ایک ٹویٹ ملا جس میں تحریر تھا،’کیا قطب مینار کی جگہ پہلے ہندوؤں کا مندر تھا؟‘
فی الحال یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر شامل فلک بوس قطب مینار (240 فٹ اونچا) قومی دارالحکومت دہلی کی سب سے مشہور یادگاروں میں سے ایک ہے۔
قطب مینار دہلی سلطنت کے پہلے حکمراں قطب الدین ایبک نے بنوایا تھا۔ قطب الدین ایبک نے 25 جون 1206ء سے 1210ء تک حکومت کی ہے۔
افغانستان کے مینار آرٹ سے متاثر یہ مینار سرخ اور بادامی رنگ کے بلوا پتھر سے بنا ہے۔ یہ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ چند ابتدائی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ قطب الدین ایبک کے بعد تین سلاطین نے اس کی مرمت کر کے اسے مزید بلند کیا۔ اس وقت قطب مینار کی پانچ منزلیں ہیں اور چوٹی تک پہنچنے کے لیے 379 سیڑھیاں ہیں۔
وکی پیڈیا کے پیج کے مطابق قطب مینار کمپلیکس میں دیگر اہم یادگاریں ہیں جیسے کہ 1310 میں بنایا گیا ایک دروازہ، علائی دروازہ، مسجد قوۃ الاسلام؛ التمش، علاء الدین خلجی اور امام ضامن کے مقبرے؛ علائی مینار سات میٹر اونچا لوہے کا ستون وغیرہ۔
علائی مینار جسے وائرل تصویر میں قطب مینار کے طور پر دکھایا جا رہا ہے، دہلی کے سلطان علاؤالدین خلجی نے بنوایا تھا جس نے ہندوستان کو چنگیز خان کی یلغار سے بچایا تھا۔ قطب مینار کمپلیکس میں واقع ’علائی دروازہ‘ کو ابتدائی ترک فن تعمیر کے بہترین نمونوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
علائی مینار اس کی عظمت کی علامت تھا اور علاؤالدین خلجی کے پاس جشن منانے کی وجہ بھی تھی۔ اس کی فوجیں ہندوستان بھر میں فتح یاب ہوئی تھیں اور اپنے دور حکومت کے چند سالوں کے اندر اس نے راجستھان کی ریاستوں – چتوڑ، رنتھمبور، جالور، نیز گجرات اور مالوہ کے دیگر علاقوں کو فتح کر لیا تھا۔ جنوب (دکن) کی طرف پیش قدمی کرنے والی سب سے پہلی فوج، خلجی کی فوج ہے۔
ویب سائٹ livehistoryindia.com کے مطابق سلطان کو امید تھی کہ ’مینارِ فتح‘ اس کی شہرت کو وقتاً فوقتاً برقرار رکھے گا۔ اس ڈریم پروجیکٹ کی بہترین تفصیل مشہور صوفی شاعر امیر خسرو کی کتاب ’تاریخ علائی‘ میں درج ہے۔ امیر خسرو نے بیان کیا کہ کس طرح سلطان ’ایک مینار کو اتنا اونچا بنانا چاہتا تھا جسے عبور نہ کیا جا سکے‘۔
ویسے مشہور ہے کہ خلجی علائی مینار کو قطب مینار سے دوگنا اونچا بنانا چاہتا تھا۔
ویب سائٹ livehistoryindia.com کی رپورٹ کے مطابق علائی مینار کی تعمیر کے آغاز کی صحیح تاریخ کا علم نہیں ہے، تاہم اندازہ ہے کہ اس کی تعمیر تقریباً 1300 عیسوی میں شروع ہوئی تھی۔ 1316ء میں سلطان کی وفات کے وقت مینار پہلی منزل تک ہی پہنچا تھا۔ اسے جلد ہی چھوڑ دیا گیا۔ اب خلجی کی عظیم الشان یادگار کی باقیات، قطب مینار کمپلیکس میں چھ منزلہ بشکلِ مدوَّرہ (گول) موجود ہے۔
نتیجہ:
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ قطب مینار وشنو استمبھ نہیں ہے۔ اسے قطب الدین ایبک نے تعمیر کروایا تھا اور علائی مینار علاؤالدین خلجی نے بنوایا تھا، اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: علائی مینار قطب مینار ہے! قطب مینار ہے وشنو استمبھ۔
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: فیک