سماج اور سوشل میڈیا پر رہ رہ کر یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ گاندھی جی نے آزادی کے متوالے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو انگریزی مظالم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
روشن سنگھ راجپوت نامی یوزر نے ٹویٹ کیا،’یہ وہی گاندھی ہے جنھوں نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکنے دیا، آزادی کے دیوانوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا، ایسے گاندھی کی جینتی کیوں منائیں، آج لال بہادر شاستری جینتی ہے،#لال_بہادر_شاستری_جینتی‘۔
دیواکر چوہان نے ٹویٹ کرکے سوال کیا،’بھگت سنگھ کو کیوں نہیں بچایا گاندھی جی نے پوچھا ہے۔ بھارت۔۔ وندے ماترم__rss‘۔
شیطان سنگھ امبیڈکر نامی ٹویٹر یوزر نے لکھا،’ناتھورام گوڈسے اور مہاتما گاندھی کے بیچ ہم گاندھی کے ساتھ ہے۔گاندھی اور بابا صاحب امبیڈکر کے بیچ ہم امبیڈکر کے ساتھ ہے۔ گاندھی اور بھگت سنگھ کے بیچ ہم بھگت سنگھ کے ساتھ ہے‘۔
وہیں ابھیشیک اپادھیائے نے لکھا،’بائیں بازو کے حامیوں کی الجھنیں بھی تاریخی ہیں۔ جیسے ہی آپ ان سے ساورکر اور گاندھی کا ذکر کریں گے، وہ گاندھی کا پاؤں پکڑ لیں گے اور جیسے ہی آپ بھگت سنگھ کی پھانسی کو نہ روکنے میں گاندھی کے کردار و اس کے سبب 1929 کے کراچی اجلاس میں گاندھی گو بیک کے نعروں کا ذکر کریں گے، وہ گاندھی پر آنکھیں لال کر لیں گے‘۔
ان کے علاوہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کئی یوزرس نے بھگت سنگھ کی پھانسی کے تناظر میں گاندھی جی کے بارے میں باندازہ سوالیہ لہجہ، اسی سے ملتے جلے دعوے کیے ہیں۔
فیکٹ چیک
DFRAC فیکٹ چیک ٹیم نے متذکرہ بالا دعوے کی جانچ-پڑتال کے لیے کچھ کی-ورڈ کی مدد سے انٹرنیٹ پر سرچ کیا۔ ٹیم کو مختلف میڈیا ہاؤسز کی جانب سے پبلش کئی رپورٹس ملیں۔
دینِک بھاسکر کی جانب سے سرخی،’کیا بھگت سنگھ کو پھانسی سے بچا سکتے تھے: گاندھی پر اٹھ رہے ایسے پانچ سوالوں کی کہانی‘ کے تحت پبلش رپورٹ کے مطابق بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت نے پبلک سیفٹی بل اور ٹریڈ ڈِسپیوٹ ایکٹ کی مخالفت کے ساتھ آزادی کی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے دہلی واقع مرکزی اسمبلی میں دو بم پھینکے اور گرفتاری بھی دی۔ بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو سات اکتوبور 1930 کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور طے شدہ تاریخ سے ایک دن پہلے 23 مارچ 1931 کو لاہورر جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
رپورٹ کے مطابق پھانسی سے 17 دن پہلے یعنی 5 مارچ 1931 کو وائسرائے لارڈ اِروِن اور گاندھی کے درمیان ہونے والے معاہدے کی اہم شرائط میں تشدد کے ملزمان کے علاوہ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل تھی۔ اس کے علاوہ سمندر کے کنارے نمک بنانے کا ہندوستانی کا حق، تحریک کے دوران استعفیٰ دینے والوں کی بحالی، تحریک کے دوران ضبط کی گئی جائیداد کی واپسی جیسی باتیں شامل تھیں۔ اس کے عوض میں کانگریس نے سول نافرمانی کی تحریک کو معطل کر دیا اور دوسری گول میز کانفرنس میں جانے پر رضامندی کا اظہار کیا۔
دینک بھاسکر نے مؤرخ اے جی نورانی کی کتاب ’دی ٹرائل آف بھگت سنگھ‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ گاندھی نے بھگت سنگھ کو بچانے کی آدھی ادھوری کوششیں کیں۔ انہوں نے وائسرائے سے بھگت سنگھ کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کی سختی سے اپیل نہیں کی۔
رپورٹ کے مطابق مورخ اور گاندھی پر کئی کتابوں کے مصنف انِل نوریا کا کہنا ہے کہ گاندھی نے بھگت سنگھ کی پھانسی کو کم کرنے کے لیے تیج بہادر سپرو، ایم آر جَیکر اور سری نِواس شاستری کو وائسرائے کے پاس بھیجا تھا۔ اپریل 1930 سے اپریل 1933 کے درمیان برٹش سرکار میں وزیر داخلہ کے سکریٹری رہے ہربرٹ ولیم ایمرسن نے اپنی یاد داشت میں لکھا ہے کہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو بچانے کے لیے گاندھی کی کوشش ایماندار تھی اور انھیں کام چلاوؤ کہنا امن کے ایلچی کی تذلیل ہے۔
وہیں سرخی،’گاندھی جی نے کیوں نہیں روکی بھگت سنگھ کی پھانسی‘ کے تحت بی بی سی ہندی کی جانب سے پبلش رپورٹ کے مطابق گاندھی جی کہتے ہیں،’بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بات کرنے کا موقع ملا ہوتا تو میں ان سے کہتا کہ ان کا چُنا ہوا راستہ غلط اور ناکام ہے۔ ایشور (مالک) کو گواہ مان کر میں یہ سچ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ تشدد کے راستے پر چل کر سوراج نہیں مل سکتا۔ صرف مشکلیں مل سکتی ہیں۔ میں جتنے طریقوں سے وائسرائے کو سمجھا سکتا تھا، میں نے کوشش کی۔ میرے پاس سمجھانے کی جتنی شکتی (قوت) تھی۔ وہ میں نے استعمال کی۔ 23ویں تاریخ کی صبح میں نے وائسرائے کو ایک ذاتی خط لکھا، جس میں میں نے اپنی پوری روح انڈیل دی تھی‘۔
رپورٹ کے مطابق گاندھی نے کہا،’بھگت سنگھ عدم تشدد کے پجاری نہیں تھے، لیکن وہ تشدد کو مذہب نہیں مانتے تھے۔ ان ہیروز نے موت کے خوف پر بھی فتح پا لی تھی۔ ان کی بہادری کو سلام۔ لیکن ان کے فعل کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ میں نہیں مانتا کہ ان کے اس عمل سے ملک کو کوئی فائدہ ہوا ہے۔ اگر خون بہا کر شہرت حاصل کرنے کا رواج شروع ہو جائے تو لوگ ایک دوسرے کے قتل میں انصاف تلاش کرنے لگیں گے‘۔
بی بی سی ہندی نے اپنی رپورٹ میں کچھ بنیادی سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ جب بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت نے اسمبلی میں بم پھینکے تو مشہور مصنف خوشونت سنگھ کے والد سر سوبھا سنگھ وہاں موجود تھے۔
انہوں نے عدالت میں بھگت سنگھ کی شناخت کی تھی۔ اس لیے بعد کے سالوں میں دائیں بازو (ہندتوادی سخت گیر) کی قوتوں نے بھی خشونت سنگھ کو نیچا دکھانے کی کوشش کی کہ خشونت سنگھ کے والد کی گواہی بھگت سنگھ کو پھانسی پر لٹکانے کا باعث بنی۔ درحقیقت بھگت سنگھ کو اسمبلی میں بم پھینکنے پر نہیں بلکہ سانڈرس کے قتل (جس سے سوبھا سنگھ کا کوئی تعلق نہیں تھا) کے لیے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ بھگت سنگھ کی پھانسی میں سب سے اہم کردار بہت سے انقلابی کامریڈوں نے ادا کیا جو سرکاری گواہ بن گئے۔ (ان میں سے ایک جے گوپال کی غلطی کی وجہ سے سکاٹ کے بجائے سانڈرس کی موت ہوئی تھی) برسوں سے بھگت سنگھ کو پھانسی دینے کے نام پر گاندھی (یا سوبھا سنگھ) کی مذمت کی جاتی رہی ہے، لیکن بھگت سنگھ کے ساتھیوں کے خلاف گواہی دینے والے انقلابی کامریڈس پر کبھی تنقید نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوتا۔
دی ٹریبیون کی 13 مئی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق، وزیر اعظم مودی نے بیدر میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا کوئی کانگریس کا رہنما بھگت سنگھ سے جیل میں ملنے گیا تھا؟
ٹریبیون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کانگریس نے بھگت سنگھ ڈیفنس کمیٹی بنائی تھی۔ 9 اگست 1929 کو سامنے آنے والی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ نہرو نے کانگریس کے رہنما ڈاکٹر گوپی چند (ایم ایل سی) کے ساتھ 8 اگست کو لاہور سینٹرل اور بورسٹل جیل کا دورہ کیا اور احتجاجیوں سے بات چیک کی۔ نہرو نے ‘The Great Sacrifice May Bear Fruit’ کے عنوان سے ایک بیان جاری کیا، جو 10 اگست 1929 کو دی ٹریبیون میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو زبردستی کھانا کھلانے کی کوشش کرنے پر جیل حکام پر تنقید کی۔
thecrediblehistory.com کی رپورٹ کے مطابق- ’جب ان کے والد نے ٹریبونل میں قانونی مدد کے لیے ڈیفنس کمیٹی بنائی تو بھگت نے اس کی سخت مخالفت کی۔ انہوں نے اپنے لیے کسی معافی کے بجائے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر ہم نے برطانوی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑی ہے تو ہمیں جنگی قیدیوں کی طرح گولی مار دی جائے۔ وہ کسی بھی قسم کی معافی کے بالکل خلاف تھے۔ وہ ساورکر نہیں تھے کہ جیل اور پھانسی کے خوف سے معافی مانگتے یا اپنا ارادہ بدل لیتے۔ سوال یہ بھی ہے کہ زندگی بھر عدم تشدد پر عمل کرنے والے گاندھی ایسی شرط کیسے رکھ سکتے تھے؟ گاندھی صرف انسانی بنیادوں پر بھگت سنگھ کی سزائے موت کو معاف کرانے کی کوشش کر سکتے تھے اور اس بنیاد پر انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
رپورٹ کے مطابق، اِروِن نے اپنی یادداشت میں لکھا- ’گاندھی نے کہا کہ انھیں خدشہ ہے کہ اگر میں نے بھگت سنگھ کی سزائے موت کے بارے میں کچھ نہیں کیا تو معاہدہ ٹوٹ سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ میرے لیے بھی دکھ کی بات ہے لیکن بھگت سنگھ کی سزائے موت کے معاملے میں کوئی چھوٹ دینا میرے لیے بالکل ناممکن ہے۔
ایک دیگر رپورٹ کے مطابق نہرو کی بھتیجی منموہنی سہگل نے بھگت سنگھ کی سزائے موت کے خلاف احتجاج کیا تھا جس کی وجہ سے انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
نتیجہ:
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ گاندھی جی نے بھگت سنگھ کی پھانسی کو روکنے کی پوری کوشش کی تھی۔ کانگریس نے قانونی چارہ جوئی کے لیے ایک ڈیفنس کمیٹی بنائی تھی، لہٰذا سوشل میڈیا یوزرس کی جانب سے جو دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: گاندھی جی نے بھگت سنگھ کو پھانسی کے پھندے پر لٹنے کے لیے چھوڑ دیا
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: گمراہ کن