سوشل میڈیا سائٹس پر مجاہد آزادی بھگت سنگھ کے بارے میں طرح طرح کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ انہی میں سے کچھ یہ ہیں کہ جس جج نے انھیں پھانسی کی سزا سنائی تھی، وہ برہمن تھا اور بھگت سنگھ کے خلاف کیس لڑنے والا وکیل بھی برہمن تھا۔
ندیم نیڈ نامی یوزر نے ٹویٹ کیا،’1. یہ ہے وہ مسلم جج جسٹس آغا حیدر جنھوں نے بھگت سنگھ کو سزا دینے سے انکار کر دیا اور استعفیٰ دے دیا تھا۔ 2. یہ ہے وہ سندھی جج رائے صاحب پنڈت جس نے بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا سنائی۔ پھر بھی، ناتھورام گوڈسے کو دیش بھکت ماننے والے سندھی کہتے ہیں مسلمان غدار ہے‘۔
بیڈ بوائے عاطف نے ٹویٹ کیا،’بھگت سنگھ کا کیس لڑنے والا وکیل ایک مسلم تھا اور بھگت سنگھ کے خلاف کیس لڑنے والا انگریزوں کا دلال، سنگھی ایک برہمن تھا #بھگت_سنگھ‘۔
ایک ٹویٹر یوزر نے ٹویٹ میں لکھا،’”بھگت سنگھ” کا جو کیس لڑ رہا وہ ایک مسلمان تھا… اور اس کا نام آصف علی تھا تو وہ غدار وکیل کون تھا جس نے بھگت سنگھ کو پھانسی دلانے کے لیے انگریزوں کی طرف سے کیس لڑا تھا اس غدار کا نام رائے بہادر سوریہ نارائن تھا۔ سوریہ نارائن #RSS کے بانی ’’ہیڈگوار کا دوست اور #RSS کا رکن تھا‘۔
فیکٹ چیک:
سوشل میڈیا یوزرس کی جانب سے کیے گئے مذکورہ بالا دعوے میں کئی طرح کی باتیں ہیں، جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ کیا بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا سنانے والا جج برہمن تھا؟ اس کی حقیقت جاننے کے لیے ہم نے کچھ کی-ورڈ کی مدد سے گوگل پر سرچ کیا۔ ہمیں مختلف میڈیا ہاؤسز کی جانب سے پبلش کئی رپورٹس ملیں۔
8 اپریل 1929 کو ، شہید بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسمبلی ہال میں بم پھینکا تھا۔ آزادی کے لیے ’انقلاب زندہ آباد‘ کا نعرہ لگایا، تبھی انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان پر خصوصی ٹریبونل کی جانب سے کیس درج کیا گیا تھا، لیکن واضح ہو کہ بھگت سنگھ کو لاہور کانسپیریسی کیس (1929-1930) میں پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔
ویب سائٹ نیوز ٹریک کی جانب سے پبلش رپورٹ کے مطابق سہارنپور کے باشندے جسٹس آغا حیدر ٹریبونل میں واحد ہندوستانی رکن تھے۔ ٹریبونل میں سبھی جج انگریز تھے۔ 7 اکتوبر 1930 کو بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ جسٹس آغا حیدر نے اس فیصلے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ انگریزوں کا دباؤ پڑنے پر جسٹس حیدر نے ملک کی آزادی کی خاطر جج کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
یہیں اس حقیقت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا سنانے والے جج، انگریز تھے نہ کہ رائے بہادر صاحب پنڈت۔
مشہور وکیل اے جی نورانی کی کتاب ’دی ٹرائل آف بھگت سنگھ‘ کے مطابق،’ ایڈیشنل مجسٹریٹ ایف بی پول کی عدالت میں ٹرائل کی شروعات 7 مئی 1929 کو ہوئی۔ آصف علی وکیلِ دفاع کے طور پر پیش ہوئے جبکہ رائے بہادر سورج نارائن استغاثہ کے وکیل کے طور پر۔ کورٹ میں بھگت سنگھ کے گارجین ان کے چچا اجیت سنگھ کی بیوی اور ارونا آصف علی تھے۔ جب انھیں عدالت میں لایا گیا تب بھگت سنگھ، بٹوکیشور دت نے انقلاب زندہ باد اور سامراجیت مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے‘۔ لیکن بہادر سورج نارائن کا تعلق آر ایس ایس سے ہونے کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
نتیجہ
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا سنانے والا جج برہمن نہیں تھا، بلکہ جو ٹریبونل اس کیس کی شنوائی کر رہا تھا، اس میں جسٹس آغا حیدر کے علاوہ سبھی انگریز تھے۔ جسٹس آغا حیدر نے بھگت سنگھ کے خلاف پھانسی کے فیصلے پر دستخط کرنے سے انکار کیا اور مستعفیٰ ہو گئے۔ بھگت سنگھ کا کیس آصف علی نے لڑا تھا اور رائے بہادر سورج نارائن وکیلِ استغاثہ تھے مگر رائے بہادر سورج نارائن کا آر ایس ایس سے تعلق ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اس لیے یوزرس کی جانب سے کیا جانے والا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
دعوی: بھگت سنگھ کو برہمن جج نے پھانسی کی سزا سنائی تھی
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: گمراہ کن