سوشل میڈیا سائٹس پر طرح طرح کے نت جھوٹے اور گمراہ کن دعوے کیے جاتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا یوزرس کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء غاصب اور حملہ آور ہیں۔
پربودھ سنگھ سناتنی نامی یوزر نے اپنے ٹویٹ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ‘مارکسسٹ’ (سی پی آئی ایم) کے رہنما سیتارام یچوری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا، "#رامائن_ایکسپریس کے نام سے چلائی جا رہی ٹرین کمیونل ہے- سیتارام یچوری جب رام کے دیش میں رامائن ایکسپریس کمیونل ہے @SitaramYechury تو حملہ آور اور غاصب کے نام پر چلائی جا رہی ٹرین #حضرت_نظام الدین_ایکسپریس سیکولر کیسے ہے؟ @Ajodhya1994 @spsinghnew @vijay_path‘
اسی طرح شیویندر لودھی نے بھی ٹویٹ رپلائی میں لکھا ہے،’مسلمان حملہ آور تھے۔ مقامی نہیں ہیں۔ محمد بن قاسم سے شروعات ہوئی۔ نظام الدین اسٹیشن ہی نہیں اور مقامات کا بھی دوبارہ تسمیہ کاری (تبدیلیٔ نام) ہونی چاہیے۔
فیکٹ چیک
مذکورہ دعوے کی جانچ-پڑتال کے لیے ہم نے کچھ کی-ورڈ کی مدد سے انٹرنیٹ پر سرچ کیا اور پہلے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا سیتارام یچوری نے رامائن ایکسپریس کے حوالے سے کوئی بیان دیا ہے یا نہیں؟ ہمیں کہیں بھی ایسی کوئی خبر نہیں ملی۔ پھر ہم نے رامائن ایکسپریس کو سرچ کیا۔ ہمیں اس حوالے سے بہت سی میڈیا رپورٹس ملیں۔
07 نومبر 2021 آج تک کی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ بعنوان، ’IRCTC کی شری رامائن یاترا آج سے شروع ، کرایہ سمیت سبھی ڈِٹیلس‘ میں بتایا گیا ہے کہ انڈین ریلوے کیٹرنگ اینڈ ٹورزم کارپوریشن (IRCTC) نے مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے رامائن سرکٹ یاترا کی شروعات دہلی کے صفدرجنگ ریلوے اسٹیشن سے ہوئی۔ یہ ٹرین کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے کم نہیں ہے۔ اس میں 2AC کے لیے فی کس 82,950 روپے اور 1AC کیٹیگری کے لیے 1,02,095 روپے ادا کرنے ہوں گے۔
بعد ازاں ہم نے بعض مخصوص کی-ورڈ کی مدد سے حضرت نظام الدین اولیاء کے بارے میں سرچ کیا کہ کیا وہ حملہ آور اور غاصب تھے۔ اس دوران ویب سائٹ دعوت اسلامی پر پبلش ایک آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ نظام الدین اولیاء کا نام محمد ہے اور لقب، شیخ المشائخ، نظام الدین اور محبوبِ الہی ہے۔ کتاب؛ محبوب الہی صحفہ: 90-91 اور شانِ اولیا صفحہ: 883 کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان کی پیدائش 27 صفر المظفر 634 ہجری میں اترپردیش کے ضلع بدایوں میں ہوئی تھی۔ اسلامی کیلینڈر کے حساب سے 1444واں ہجری چل رہا ہے، یعنی 810 سال قبل۔ نظام الدین اولیاء بچپن میں ہی دہلی آ گئے تھے۔
وکی پیڈیا پیج پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق 1269 میں جب حضرت نظام الدین اولیاء کی عمر 20 سال تھی، وہ اجودھن (موجودہ پاکپتن شریف، جو پاکستان میں واقع ہے) پہنچے اور مشہور صوفی بزرگ فرید الدین گنج شکر کی شاگردی اختیار کی جو عرف عام میں بابا فرید کے نام سے مشہور ہیں۔ نظام الدین نے اجودھن کو اپنی رہائش گاہ نہیں بنایا، لیکن وہیں اپنی روحانی تعلیم جاری رکھی، اور ساتھ ہی دہلی میں متصوفانہ ریاض بھی جاری رکھا۔
وہ ہر سال رمضان کا مبارک مہینہ اجودھن میں بابا فرید کے ساتھ گذارا کرتے تھے۔ اجودھن کے اپنے تیسرے سفر میں بابا فرید نے انھیں اپنا جانشین مقرر کیا۔ آپ ہندوستان کے چوتھے چشتی بزرگ ہیں۔ وہاں سے واپسی پر انھیں بابا فرید کی وفات کی خبر ملی۔
حضرت نظام الدین اولیاء کبھی حکومتوں اور بادشاہوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ آپ کا فارسی زبان میں فرمودہ جملہ’ہنوز دہلی دور است‘ (دہلی ابھی دور ہے) آج بھی مشہور ہے۔
ویب سائٹ sufinama.org کے مطابق غیاث الدین تغلق نے حضرت نظام الدین اولیاء کو ایسی کوئی بات کہتے نہیں سنا، لیکن اس کے دل میں ان کے تئیں عناد تھا۔ چنانچہ جب وہ بنگال سے واپس آ رہا تھا تو اس نے اپنے ایک سفیر کے ذریعے حضرت نظام الدین اولیاء کو پیغام بھیجا کہ اس سے پہلے کہ میں دہلی پہنچوں، آپ دہلی چھوڑ دیں اور اپنی رہائش گاہ غیاث پور (موجودہ بستی نظام الدین، دہلی) سے بھی ہاتھ دھو لیں۔ نظام الدین اولیاء کو یہ پیغام ناگوار لگا۔ انہوں نے پیغام کے جواب میں محض ’ہنوز دہلی دور است‘ فرمایا۔ غیاث الدین تغلق دہلی کے قریب پہنچ گیا لیکن موت نے اسے دہلی کی سرزمین پر قدم رکھنے کا موقع نہیں دیا۔ وہ راستے میں اپنے ہی محل کے نیچے دب کر فنا ہو گیا جو اس کے بیٹے نے افغان پور میں اس کے لیے بنوایا تھا۔
نتیجہ:
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء غاصب اور حملہ آور نہیں تھے، ان کی جنم بھومی اور کرم بھومی دونوں بھارت ہے۔ وہ ایک عظیم صوفی بزرگ ہیں جنھیں پوری دنیا کے مسلمان عقیدت سے یاد کرتے ہیں۔
دعویٰ: حضرت نظام الدین اولیاء حملہ آور اور غاصب ہیں
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
نتیجہ: گمراہ کن