نیتا جی سبھاش چندر بوس اکثر سوشل میڈیا سائٹس پر موضوعِ بحث بنے رہتے ہیں۔ نیتا جی کے بارے میں طرح طرح کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ برطانوی حکومت کے کہنے پر گاندھی جی نے سبھاش چندر بوس سے استعفیٰ مانگا تھا۔
We_Support_Pushpendra_Kulshrestha نامی یوزر نے فیس بک پر پشپیندر کلشریشٹھ کا تقریباً 11 منٹ کا ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے دعویٰ کیا،’#گاندھی نے #سبھاش چندر بوس سے استعفیٰ مانگا تھا #pushpendra #pushpendrakulshreshtha #pushpendrakulshretha #कुलश्रेष्ठ #स्पीच۔‘
اسی طرح دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی یہی دعویٰ کیا گیا ہے۔
کچھ نیتا جی کے بارے میں…
نیتا جی سبھاش چندر بوس 23 جنوری 1897 کو کٹک، اڈیشہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جانکی ناتھ بوس کٹک شہر کے مشہور وکیل تھے، انہوں نے کٹک کی میونسپل کارپوریشن میں طویل عرصے تک کام کیا اور وہ بنگال اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ برطانوی حکومت نے انہیں رائے بہادر کا خطاب دیا تھا۔
سبھاش چندر بوس نے کلکتے میں کانگریس کے سب سے بڑے رہنما دیش بندھو چترنجن داس کی تحریک پر کانگریس سے وابستہ ہوئے۔ وہ چترنجن داس کو اپنا سیاسی گرو مانتے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں نیتا جی کو نوجوان آئیکن کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ 1923 میں، وہ بھارتیہ یُوَک کانگریس کے صدر کے ساتھ ساتھ بنگال کانگریس کے سیکرٹری بھی منتخب ہوئے۔ بہت جلد سبھاش چندر بوس کا شمار ہندوستان کی جنگ آزادی کے سرکردہ اور بڑے رہنماؤں میں ہونے لگا۔
فیکٹ چیک:
وائرل دعوے کی جانچ-پڑتال کے لیے، ہم نے کچھ خاص کی-ورڈ کی مدد سے انٹرنیٹ پر سرچ کیا۔ نتیجتاً ہمیں مختلف میڈیا ہاؤسز کی جانب سے پبلش بہت سے مضامین اور رپورٹس ملے۔
20-21 فروری 1939کو کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس وردھا میں ہوا۔ صحت کی وجہ سے نیتا جی اس میں نہیں پہنچ سکے۔ انہوں نے سردار پٹیل سے سالانہ اجلاس تک اسے ملتوی کرنے کو کہا۔ گاندھی جی سے اپنی خواہش کے مطابق ایک ورکنگ کمیٹی قائم کرنے کی درخواست بھی کی لیکن گاندھی جی نے اسے قبول نہیں کیا۔
راج کھنہ کی کتاب ’آزادی سے پہلے، آزادی کے بعد‘ کے حوالے سے پبلش آج تک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیتا جی سبھاش چندر بوس 1938 میں ہری پورہ اجلاس میں بلامقابلہ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ 1939 میں سبھاش بابو نے دوسری بار صدر کے عہدے کا دعویٰ پیش کیا۔ گاندھی جی نے سردار پٹیل کے توسط سے سبھاش بابو کے بھائی شرَت چندر بوس کو ایک ٹیلی گرام بھیجا، جس میں ان سے گذارش کیا کہ وہ سبھاش بابو کو الیکشن نہ لڑنے کے لیے راضی کریں، لیکن نیتا جی نے صدر کے عہدے کے لیے اپنا دعویٰ پیش کرتے ہوئے کہا،’انکسار کا جھوٹا دکھاوا چھوڑا جائے کیونکہ اس میں نجی (ذاتی) جیسا کچھ نہیں ہے۔امیدواروں کے درمیان متعینہ پروگروموں اور مسائل کو سامنے رکھ کر لڑا جانا چاہیے‘۔
ورکنگ کمیٹی کے گاندھی نواز ارکان، جن میں ولبھ بھائی پٹیل اور راجندر پرساد شامل ہیں، نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا،’صدر کے عہدے کے الیکشن سے آئیڈیا لوجی، پالیسیز، پروگراموں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پالیسیوں کا فیصلہ صدر نہیں کرتا۔ اس کے لیے کانگریس کی مختلف کمیٹیاں اور ورکنگ کمیٹی ہیں۔ صدر کا عہدہ صرف آئینی سربراہ کا ہے جو ملک کے اتحاد و استحکام کی علامت اور نمائندگی کرتا ہے‘۔
نیتا جی نے ورکنگ کمیٹی کے ارکان کی حیثیت سے ان ارکان کی دو امیدواروں کے انتخاب کے درمیان منظم مداخلت کو نامناسب قرار دیا۔ صدر کو واحد آئینی سربراہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اسے وزیر اعظم اور امریکی صدر کی طرح بتایا جو خود اپنی کابینہ تشکیل دیتے ہیں۔
ٹائمس ناؤ ہندی کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق، اگلے صدر کا انتخاب 1939 میں تریپوری کانگریس کے اجلاس میں ہونا تھا۔ گاندھی جی سبھاش چندر بوس سے مطمئن نہیں تھے۔ دراصل دنیا دوسری جنگ عظیم کے دہانے پر کھڑی تھی۔ جہاں سبھاش چندر بوس انگریزوں کے خلاف لڑنا چاہتے تھے۔ ساتھ ہی ایک گروہ انگریزوں سے سمجھوتہ کرنا چاہتا تھا۔
تریپوری الیکشن سے پہلے جواہر لعل نہرو نے سبھاش چندر بوس کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا۔ اسی دوران مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اپنا دعویٰ واپس لے لیا۔ ایسے میں گاندھی جی نے سبھاش چندر بوس کے مقابلے پٹادھی سیتارمَیّا کو اپنا امیدوار بنایا۔
الیکشن میں جہاں سبھاش چندر بوس کو 1580 ووٹ ملے، وہیں سیتارمَیّا کو 1377 ووٹ ملے۔ گاندھی جی نے اس ہار کو اپنی شکست قرار دیا۔ گاندھی جی نے کانگریس کارکنان سے کہا کہ اگر وہ بوس کے کام سے خوش نہیں ہیں تو وہ کانگریس چھوڑ سکتے ہیں۔
گاندھی جی کی اس اپیل کے بعد کانگریس ورکنگ کمیٹی کے 14 میں سے 12 ممبران نے استعفیٰ دے دیا۔ بالآخر سبھاش چندر بوس نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرلی۔ بعد میں سبھاش چندر بوس نے اپنی الگ فارورڈ بلاک پارٹی بنائی اور انڈین نیشنل آرمی کے ذریعے، نیتا جی نے جنگ آزادی میں حصہ لیا۔
نوبھارت ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق گاندھی جی نے کہا،’مجھے ان کی (سبھاش چندر بوس کی) جیت سے خوش ہے اور چونکہ مولانا آزاد صاحب کے نام واپس لینے کے بعد ڈاکٹر پٹابھی سیتارامیا سے الیکشن سے پیچھے نہ ہٹنے کو کہا تھا، لہٰذا ان کی ہار، ان سے زیادہ میری ہار ہے‘۔
الیکشن کے بعد گاندھی اور بوس کے حامیوں کے درمیان شدید لفظی جنگ ہوئی۔ گاندھی کے حامیوں نے بوس کی قائدانہ صلاحیت پر سوال اٹھایا۔ ان کی قیادت کو ’سوراخوں والی کشتی‘ کا نام دیا۔ انہوں نے ان کے پہلے کے ایک بیان پر ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ دراصل، سبھاش چندر بوس نے ایک بار گاندھی کے پیروکاروں کو کم علمی سطح (Low Intellectual level) والا قرار دیا تھا۔ دوسری جانب پٹیل، نہرو سمیت 13 اراکین نے سبھاش بابو پر تاناشاہی کا الزام عائد کرتے ہوئے ورکنگ کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اپریل 1939 میں، تریپوری اجلاس کے اگلے ہی مہینے، نیتا جی سبھاش چندر بوس نے نہ صرف کانگریس صدر کے عہدے سے بلکہ پارٹی کی بنیادی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ 3 مئی 1939 کو انہوں نے کلکتے میں ایک ریلی میں فارورڈ بلاک کے قیام کا اعلان کیا اور اس طرح ان کی راہیں کانگریس سے الگ ہو گئیں۔
نتیجہ:
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہوتا ہے کہ گاندھی نے نیتا جی سبھاش چندر بوس سے استعفیٰ نہیں مانگا تھا، بلکہ ان سے مسلسل دوسری بار کانگریس صدر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑنے سے روکنے کی درخواست کی تھی، لیکن نیتا جی نہیں مانے اور وہ کامیاب بھی ہوئے، لہٰذا سوشل میڈیا یوزرس کی جانب سے کیا جا رہا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: انگریز حکومت کے کہنے پر گاندھی جی نے سبھاش چندر بوس سے استعفیٰ مانگا تھا۔
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: گمراہ کن