مغل تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ جانے کیوں ’ماضی‘ ہو جانے کے باوجود وہ حال کے دائیں بازو-سخت گیروں کے نشانے پر رہتے ہیں، فی الحال مغل کا خوف پیدا کرکے انھیں مستقبل کے لیے خطرہ بتایا جاتا ہے۔ سماج اور سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں طرح طرح کے چرچے رہتے ہیں، بیشتر غلط فہمیاں بھی ہیں۔ بہتیرے فرضی، گمراہ کن اور بہت سارے پروپیگنڈے۔ انہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شاہ جہاں نے اپنی بیوی ممتاز کی وفات کے بعد اپنی بیٹی جہاں آرا بیگم کو اپنی بیوی بنا لیا تھا۔
دیپیکا رستوگی نامی ٹویٹر یوزر نے ٹویٹ کیا،’شاہ جہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز کی موت کے بعد اپنی بیٹی جہاں آرا کو بیوی بنا لیا، ہمیں تاریخ میں یہ کیوں نہیں پڑھایا گیا؟‘
اسی طرح فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی جم کر یہی دعویٰ کیا گیا ہے۔
شہنشاہ جہانگیر کی موت کے بعد 1627 میں، کم عمری میں، شاہ جہاں کو مغل تخت کا وارث منتخب کیا گیا۔ مغلیہ سلطنت کے سنہرے اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے سب سے خوشحال دور کے حکمراں، پانچویں مغل شہنشاہ، شاہ جہاں، پُر تعیش اور انصاف پسندی کے سبب اپنے دورِ حکومت میں بہت مقبول رہے۔ لیکن ان کا نام صرف ایک عاشق کے طور پر لیا جاتا ہے جس نے اپنی بیگم ’ممتاز‘ کے لیے دنیا کی سب سے خوبصورت عمارت تاج محل بنوائی۔ تاج محل کا ذکر ہندوستانی ادبیاب میں، نظم اور نثر میں خوب ملتا ہے۔ شکیل بدایونی نے لکھا:
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
فیکٹ چیک
وائرل دعوے کا فیکٹ چیک کرنے کے لیے ہم نے انٹرنیٹ پر کچھ مخصوص کی-ورڈ کی مدد سے سمپل سرچ کیا۔ نتیجۃً ہمیں اس پر میڈیا ہاؤسز کی جانب سے بپلش کئی آرٹیکل اور رپورٹ ملے۔
بی بی سی اردو نے سرخی،’جہاں آرا: مغل بادشاہ شاہجہاں کی بیٹی جو دنیا کی ’امیر ترین‘ شہزادی بنی‘ کے تحت ایک رپورٹ پبلش کی ہے۔ اس رپورٹ میں محبوب الرحمٰن کلیم کی کتاب ’جہاں آرا‘ کے حوالے سے ان کی شخصیت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ممتاز محل کی موت کے بعد، بادشاہ نے سوگ کا لباس پہن لیا تھا، لیکن کچھ دیگر مورخین کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت ہی سادگی اختیار کر لی تھی اور صرف سفید لباس میں نظر آتے تھے۔ حالانکہ ان کی بیوی کی موت کے بعد ان کی داڑھی کے بال بھی سفید ہو گئے تھے۔
شاہ جہاں نے ایسے میں اپنی کسی دوسری ملکہ کو محل کے امور کی ذمہ داری سونپنے کے بجائے، اپنی بیٹی جہاں آرا کو ’پادشاہ بیگم‘ بنایا اور ان کے سالانہ وظیفے کو چار لاکھ روپیے مزید بڑھا دیے، جس سے ان کی سالانہ آمدنی 10 لاکھ ہو گئی۔
رپورٹ میں آگے ہے کہ دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبۂ تاریخ و تہذیب میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رحماء جاوید راشد نے بتایا کہ جہاں آرا ملکۂ ہندوستان تو نہیں تھیں، لیکن اپنی ماں ممتاز بیگم کی موت کے بعد سے، وہ پوری زندگی مغل سلطنت کی سب سے طاقتور خاتون رہی ہیں۔ انھیں اپنی ماں کی موت کے بعد ’پادشاہ بیگم‘ کا خطاب دیا گیا اور حرم کی پوری ذمہ داری 17 سال کی عمر میں ان کے کندھوں پر آ گئی۔
جہاں آرا دنیا کی سب سے امیر ترین خاتون تھیں۔ ان کی سالانہ آمدن اس زمانے میں 30 لاکھ روپیے ہوتی تھی۔ موجودہ دور میں اس کی قدر ڈیڑھ ارب روپیے کے برابر ہے۔ جہاں آرا فارسی زبان کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے؛ دنیا کو آراستہ کرنے والے، دنیا کو خوبصورت بنانے والی، سجانے والی، جہاں آرا میں ان کے نام کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ پرانی دہلی یعنی 1648 میں بنے شہر شاہجہان آباد کو بسانے میں انہوں نے خاص دلچسپی لی۔ یہاں کی 19 میں سے پانچ عمارتیں انہی کی نگرانی میں بنی تھیں۔ چاندنی چوک سمیت کئی مساجد اور اجمیر درگاہ میں ایک بارہ دری کی بھی تعمیر کروائی۔
جہاں آرا خواتین کے لیے عمارات عامہ بنانے والی پہلی مغل شہزادی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ تاریخ میں ہمیں بیگم کی سرائے، بیگم کے باغ، بیگم کے محل، بیگم کے غسل خانے، اس طرح کے نام ملتے ہیں۔ سورت بندرگاہ سے ہونے والی پوری آمدنی ان کے حصے میں آتی تھی۔ ان کا خود کا پانی کا جہاز ’صاحبی‘ تھا جو ڈچ اور انگریزوں سے تجارت کرنے سات سمندر پار جاتا تھا۔
بی بی سی ہندی نے عنوان،’بیٹی جہاں آرا سے شاہ جہاں کے تعلقات اتنے متنازعہ کیوں تھے‘ کے تحت ایک رپورٹ پبلش کی ہے۔
اس رپورٹ میں ’ڈاٹرس آف دی سن‘ کی مصنفہ اِرا مُکھوٹی کے حوالے سے لکھا گیا ہے،’جب یہ مغربی سیاح ہندوستان آتے تھے تو انھیں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی تھی کہ مغل بیگمات کتنی طاقتور ہیں۔ اس کے ٹھیک بر عکس اس زمانے میں انگریز عورتوں کے پاس اس طرح کے حقوق نہیں تھے۔ انھیں اس بات پر تعجب ہوتا تھا کہ بیگمات تجارت کر رہی ہیں اور انھیں حکم دے رہی ہیں کہ وہ اس چیز کی تجارت کریں۔ اسی سبب انھیں لگتا تھا کہ ان کے شاہ جہاں کے ساتھ غلط تعلقات ہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شاہجہاں کی بیٹی خوبصورت ہیں، جبکہ میں نہیں سمجھتی کہ انھیں کبھی جہاں آرا کو دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ وہ، یہ مانتے تھے کہ شاہ جہاں کے اپنی بیٹی سے غلط تعلقات ہیں، جبھی تو وہ انھیں اتنے ڈھیر سارے حقوق ملے ہیں‘۔
رپورٹ میں ہے کہ فرانسیسی مورخ فرانسوا برنیئر اپنی کتاب ’ٹریولس ان دی مغل امپائر‘ میں لکھا ہے کہ جہاں آرا بہت خوبصورت تھیں اور شاہجہاں انھیں پاگلوں کی طرح پیار کرتے تھے۔ جہاں آرا اپنے والد کا اس قدر خیال رکھتی تھیں کہ شاہی دسترخوان پر ایسا کوئی کھانہ نہیں چنا جاتا تھا جو جہاں آرا کی نگرانی میں نہ بنا ہو۔ اس زمانے میں ہر جگہ چرچا تھی کہ شاہ جہاں کی اپنی بیٹی کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔ کچھ درباری تو چوری چھپے یہ کہتے سنے جاتے تھے کہ بادشاہ کو اس درخت سے پھل توڑنے کا پورا حق ہے، جسے اس نے خود لگایا ہے‘۔
وہیں ایک دیگر مورخ نیکولاؤ منوچی مکمل طور پر اس کی تردید کرتے ہیں۔ وہ برنیئر کی تھیوری کو خالص ’گپ‘ قرار دیتے ہیں۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ مورخ رانا صفوی بھی منوچی کی حمایت میں کہتی ہیں،’صرف برنیئر نے شاہجہاں اور جہاں آرا کے ناجائز تعلقات کی بات لکھی ہے۔ وہ اورنگزیب کے ساتھ تھے اور انھیں دارا شکوہ سے بہت رنجش تھی۔ اس وقت بھی یہ کہا جاتا تھا کہ یہ بازار گوسپ ہے اور غلط ہے۔ برنیئر، مغلط سلطنت کے وارث کی لڑائی میں اورنگزیب کا ساتھ دے رہے تھے اور جہاں آرا، دارا شکوہ کے ساتھ تھیں، اس لیے انہوں نے اس طرح کی افواہیں پھیلائیں۔ بہت پہلے سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ اگر آپ کو کسی خاتون کو نیچا دکھانا ہو تو اس کے کردار پر کیچڑ اچھال دیجیے‘۔
جہاں آرا تا عمر کنواری رہیں؛ اس کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں، مثلاً ایک دلیل یہ ہے کہ انھیں اپنی سطح کا کوئی شخص ہی نہیں ملا۔ رپورٹ کے مطابق آصف خاں دہلوی بتاتے ہیں،’بادشاہ ہمایوں تک مغل شہزادیوں کی شادیوں کا ذکر ملتا ہے‘۔
اورنگزیب اور دارا شکوہ کی مقابلہ آرائی میں جہاں آرا کے دارا شکوہ کی حمایت کرنے کے باوجود اورنگزیب نے انھیں ’پادشاہ بیگم‘ کے عہدے پر برقرار رکھا، اسی لیے روشن آرا بیگم کو ہمیشہ اپنے بھائی سے یہ شکایت رہی کہ انھیں وہ نہیں ملا جو انھیں ملنا چاہیے تھا۔ روشن آرا کی جانب سے اورنگزیب کی حمایت کیے جانے کے باوجود روشن آرا کو قلعے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔
oneindia.com کی جانب سے پبلش آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ جہاں آرا نے اورنگزیب کے اس قانون کی مخالفت میں آواز اٹھائی ، جس میں غیر مسلم سے ’انتخاب-ٹیکس‘ وصولے جانے کی بات کہی گئی تھی۔ جہاں آرا کا کہنا تھا کہ ہندو-مسلم کے نام پر قانون بنانے سے ملک بٹ جائے گا اور بکھر جائے گا، سب الگ تھلگ ہو جائیں گے۔ جہاں آرا نے اپنی زندگی کے آخر تک عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔
ستمبر 1681 میں 67 سال کی عمر میں جہاں آرا کی موت کی خبر جب اورنگزیب کے پاس پہنچی، تو وہ اجمیر سے دکن جانے کے راستے میں تھے۔ انہوں نے جہاں آرا کی موت کا سوگ منانے کے لیے شاہی قافلے کو تین دنوں تک روک دیا۔ جہاں آرا کو ان کی خواہش کے مطابق حضرت نظام الدین اولیاء کی مزار کے بازو میں دفنایا گیا۔
بی بی سی ہندی کی رپورٹ میں رانا صفوی کے حوالے سے بتایا گیا ہے،’ جہاں آرا نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر کھلی ہونی چاہیے۔ اسے پختہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ مغل تاریخ میں محض اورنگزیب اور جہاں آرا کی قبریں ہی پختہ نہیں بنائی گئی ہیں اور یہ بہت عام قبریں ہیں۔ آج بھی جہاں آرا کی قبر وہاں موجود ہے‘۔
بھائی دارا شکوہ کی طرح جہاں آرا کا جھکاؤ تصوف کی طرف تھا۔ دونوں بھائی بہن قادری سلسلے کے بزرگ ملا بدخشی کے مرید تھے۔
جہاں آرا نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ (خواجہ غریب نواز) کی سوانح حیات ’مونس الارواح‘ تصنیف کی، اسی طرح انہوں نے اپنے پیر و مرشد کی بھی سوانح حیات کو سپرد قرطاس کیا، جسے ’رسالہ صاحبیہ‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے جہاز کا نام بھی ’صاحبی‘ تھا۔ علاوہ ازیں بہت سے تراجم کیے اور کروائے۔ ان کی کتاب ’مونس الارواح‘ کو بڑا کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
نتیجہ:
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ شاہ جہاں کے اپنی بیٹی جہاں آراء کو بیوی بنائے جانے کا دعویٰ، ایک مستحکم افواہ، من گھڑت، غلط فہمی ہے۔ یہ مغربی مورخین کی حقوقِ نسواں مخالف فکر و نظر بھی ہے کہ اگر ایک خاتون کو اتنے حقوق مل گئے تو اس خاتون کا اپنے والد کے ساتھ ہی غیر قانونی تعلقات بتا دیا۔ اس حقیقت سے بے اعتناء ہو کر کہ باپ اپنی بیٹی کو کتنا مانتا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کی جانب سے کیا جانے والا دعویٰ فیک اور گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: شاہ جہاں نے ممتاز کی موت کے بعد، اپنی بیٹی جہاں آرا کو بیوی بنا لیا تھا
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: فیک اور گمراہ کن