غزہ میں تباہی اور موت کا سلسلہ بدستور جاری ہے جہاں نئے سال کے پہلے ہفتے میں 74 بچوں سمیت 332 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ اسرائیلی فوج کی جانب سے انخلا کے احکامات پر مختلف علاقوں سے نقل مکانی بھی جاری ہے۔
گزشتہ دنوں غزہ شہر اور وسطی علاقے میں فضائی حملوں سے بڑے پیمانے پر انسانی نقصان ہوا۔ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں کئی طرح کی رکاوٹیں بھی برقرار ہیں جبکہ نظم و نسق ختم ہو جانے کے باعث لوگوں کو مدد پہنچانے کا عمل بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے علاقے میں جنگ بندی کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے بچوں کو حملوں، زندہ رہنے کے لیے درکار بنیادی سہولیات سے محرومی اور سخت سردی کا سامنا ہے۔ نئے سال کے آغاز پر بہت سے بچے ہلاک ہو گئے ہیں یا انہوں نے اپنے عزیزوں کو کھو دیا ہے۔
10 لاکھ سے زیادہ بچے گزشتہ 15 ماہ سے عارضی خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں اور 26 دسمبر کے بعد آٹھ نومولود بچے جسمانی درجہ حرارت میں خطرناک حد تک کمی کے باعث ہلاک ہو گئے ہیں۔
بچوں کی زندگی کو خطرہ
یونیسف نے کہا ہے کہ غزہ میں آنے والی انسانی امداد کی مقدار لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے جبکہ امدادی قافلوں کو لوٹنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ علاقے میں کسی حد تک فعال باقی ماندہ ہسپتالوں پر مریضوں اور زخمیوں کا بھاری بوجھ ہے۔ شہری تنصیبات کی تباہی کے باعث لوگوں کو خوراک، صاف پانی، صحت و صفائی اور طبی خدمات کے حصول میں کڑی مشکلات کا سامنا ہے۔
شمالی غزہ میں واقع کمال عدوان ہسپتال واحد طبی مرکز تھا جہاں بچوں کے علاج کی خصوصی سہولیات موجود تھیں، لیکن گزشتہ ماہ اسرائیل کی عسکری کارروائی کے بعد یہ ہسپتال بھی بند ہو گیا ہے جس سے علاقے میں طبی سہولیات تک رسائی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔
کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ پناہ، غذائیت اور طبی خدمات تک رسائی کے فقدان، صحت و صفائی کے سنگین حالات اور اب موسم سرما کی آمد نے غزہ کے بچوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تشدد کا خاتمہ کرانے، لوگوں کی تکالیف میں کمی لانے اور دو بچوں سمیت تمام یرغمالیوں کی رہائی یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
امدادی قافلوں پر حملے
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ غزہ میں عام شہریوں کے علاوہ امدادی کارکنوں، طبی عملے، صحافیوں، مقامی پولیس اہلکاروں اور اقوام متحدہ کے عملے کو بھی حملوں سے تحفظ حاصل نہیں ہے۔
یکم جنوری 2025 کے بعد کم از کم دو واقعات میں امداد کی تقسیم کے عمل کی نگرانی کرنے والے محافظ اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئے۔ گزشتہ ہفتے 74 ٹرکوں پر مشتمل اقوام متحدہ کے امدادی قافلے کو لوٹ لیا گیا۔ اتوار کو اسرائیل نے المواصی اور خان یونس میں ‘محفوظ علاقے’ کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جن میں شہریوں کے علاوہ دو پولیس اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی۔
مغربی کنارے میں بڑھتی ہلاکتیں
نئے سال کے آغاز پر مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بھی پہلے سے زیادہ بگاڑ دیکھنے کو ملا ہے۔ گزشتہ 15 ماہ کے دوران علاقے میں اسرائیل کی سکیورٹی فورسز اور آبادکاروں کے تشدد سے 813 فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔
‘اوچا’ نے بتایا ہے کہ، یکم جنوری سے اب تک اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے مغربی کنارے میں چار بچوں سمیت نو فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ جمعے کو اسرائیلی آباد کاروں نے مغربی کنارے میں متعدد فلسطینی علاقوں پر حملے کیے۔ اس دوران فلسطینیوں کے گھروں اور گاڑیوں کو آگ لگائی گئی جس کے نتیجے میں ایک معمر شخص سمیت کم از کم دس افراد زخمی ہو گئے۔
اسرائیل کی جانب سے غیرمسلح فلسطینیوں بشمول خواتین اور بچوں کے خلاف طاقت کا غیرمتناسب استعمال اور ان کی ماورائے عدالت ہلاکتیں عام ہیں۔ فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کرنے اور اپنے علاقوں سے ان کی جبری بیدخلی کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ غیرقانونی اسرائیلی آبادیوں کو وسعت دی جا رہی ہے اور فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں عائد ہو رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، سوموار کو مسلح فلسطینیوں نے ایک اسرائیلی آبادی کے قریب فائرنگ کر کے دو معمر خواتین اور ایک پولیس اہلکار کو ہلاک اور آٹھ افراد کو زخمی کر دیا۔
فلسطینی سکیورٹی فورسز کا تشدد
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے مغربی کنارے میں فلسطینی سکیورٹی فورسز کے طرزعمل پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جس کی جانب سے جینین کے پناہ گزین کیمپ میں کی جانے والی ایک کارروائی میں آٹھ فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی۔ اس دوران چھ سکیورٹی اہلکاروں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ تاہم سکیورٹی فورسز نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔
ادارے نے مغربی کنارے میں آزادی اظہار پر بڑھتی ہوئی قدغن بشمول الجزیرہ ٹیلی ویژن کی نشریات پر پابندی کو بھی تشویش ناک اقدام قرار دیتے ہوئے فلسطینی انتظامیہ اور اس کی سکیورٹی فورسز سے بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے کے لیے کہا ہے۔
بین الاقوامی قانون کی پاسداری کا مطالبہ
‘او ایچ سی ایچ آر’ کا کہنا ہے کہ غزہ سمیت فلسطینی علاقوں میں گزشتہ 15 ماہ سے جاری بین الاقوامی قوانین کی پامالیوں کو مزید جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عالمی برادری اور بالخصوص متحارب فریقین پر اثرورسوخ رکھنے والے ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ دیں اور حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
ادارے نے غزہ میں قید تمام یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیل میں ناجائز طور پر قید کیے جانے والے فلسطینیوں کو آزاد کرنے، مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی غیرقانونی موجودگی کا خاتمہ کرنے اور ایسے تمام اقدامات روکنے کا مطالبہ کیا ہے جو جنگی یا انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔