اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے شام میں سابق صدر بشارالاسد کی حکومت ختم ہونے کے بعد اسرائیل کے سینکڑوں فضائی حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج گولان میں غیرفوجی علاقے کا قبضہ چھوڑ دے۔
ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں اسرائیل کی جانب سے شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی اور تزویراتی اہمیت کے حامل علاقے گولان میں پیش قدمی انتہائی پریشان کن ہے۔
The recent and extensive violations of Syria’s sovereignty and territorial integrity are deeply concerning.
— António Guterres (@antonioguterres) December 13, 2024
While maintaining public order, it is imperative to support credible, orderly and inclusive transitional arrangements in Syria.
دراندازی اور فضائی حملے
اتوار کو ہیت تحریر الشام اور دیگر مسلح گروہوں کی جانب سے دمشق کا انتظام سنبھالنے کے بعد اسرائیل کی فوج نے گولان کے سرحدی علاقے میں شامی فوج کی ایک خالی چوکی اور دونوں ممالک کے مابین بفر زون پر قبضہ کر لیا تھا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1974 میں اس جگہ ادارے کی ڈِس انگیجمنٹ آبزرور فورس (یو این ڈی او ایف) تعینات کی تھی جس کا مقصد گولان کی پہاڑیوں میں اسرائیلی اور شامی افواج کے مابین جنگ بندی کو برقرار رکھنا اور علاقے کی نگرانی کرنا تھا۔
اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ وہ نئے حفاظتی اقدامات تک عارضی طور پر اس علاقے میں موجود ہے۔ اسرائیل نے شام بھر میں اسلحے کے ذخائر، عسکری تنصیبات، ہوائی اڈوں اور ساحلی علاقوں میں بحری فوج کے جہازوں پر بھی فضائی حملے کیے ہیں جنہیں اس نے اپنے ‘دفاعی اقدامات’ قرار دیا ہے۔
کشیدگی کے خاتمے کی ضرورت
سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ شام بھر میں ہر جگہ کشیدگی کا فوری خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے بہت سے علاقے ‘ایچ ٹی ایس’ کے زیرانتظام نہیں ہیں۔
جنوب میں متعدد مسلح گروہوں نے اپنا تسلط جما رکھا ہے۔ شمال اور شمال مشرق میں کرد جنگجوؤں کی جانب سے دیر الروز شہر پر قبضے کی اطلاع ہے۔ وسطی علاقوں میں داعش سے وابستہ دہشت گرد قرار دیے گئے گروہ بھی موجود ہیں جہاں امریکہ کے جنگی جہازوں نے رواں ہفتے انہیں حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
‘گولان معاہدہ برقرار ہے’
سیکرٹری جنرل نے واضح کیا ہے کہ 1974 میں گولان سے فوجیں پیچھے ہٹانے کا معاہدہ اب بھی برقرار ہے اور اسے قائم رہنا چاہیے۔ اس علاقے میں بفر زون کے اندر ہر طرح کی عسکری موجودگی کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ایسے اقدامات سے اجتناب کیا جائے جن سے گولان میں جنگ بندی اور استحکام کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شام میں انتقال اقتدار کے لیے قابل اعتبار، منظم اور مشمولہ انتظام میں مدد فراہم کرنا ضروری ہے۔