اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے امدادی ادارے (انروا) پر پابندی کے لیے اسرائیل میں منظور کردہ قوانین پر عملدرآمد ہوا تو غزہ کے لوگوں کو اشد ضروری مدد کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ بند ہو جائے گا۔
ایک بیان میں یونیسف کا کہنا ہے کہ غزہ کے 2 لاکھ لوگوں کو درکار ہنگامی امداد مہیا کرنے کے لیے ‘انروا’ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ علاقے میں بچوں کو حالیہ تاریخ کے سنگین ترین بحران کا سامنا ہے اور نفاذ کی صورت میں یہ قوانین ان کے لیے مہلک ثابت ہوں گے۔
.@UNRWA is the backbone of the humanitarian response in Gaza.
— UNICEF (@UNICEF) October 31, 2024
With children here already facing one of the gravest humanitarian crises, if fully implemented, this decision will be deadly.
Full UNICEF statement on Israeli legislation on UNRWA👇 https://t.co/hVCYzqI6mr
بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘انروا’ فلسطینی پناہ گزینوں کو مدد مہیا کرنے والا واحد ادارہ ہے جسے یہ ذمہ داری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سونپی ہے۔ اس کے زیرانتظام بہت سی سماجی خدمات فراہم کی جاتی ہیں اور غزہ، مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم میں 18 ہزار سے زیادہ لوگ اس کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ فلسطینیوں کو تعلیمی، طبی اور دیگر خدمات مہیا کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کا کوئی اور ادارہ یہ ذمہ داری نہیں لے سکتا۔
‘انروا’ کا بے بدل کردار
جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے بتایا ہے کہ گزشتہ 13 مہینوں سے جاری جنگ میں اس کی امدادی سرگرمیوں کا بڑی حد تک انحصار ‘انروا’ کے ساتھ شراکت پر رہا ہے۔ تولیدی صحت کی ضروری خدمات فراہم کرنے بشمول زچہ بچہ کی صحت اور انہیں طبی تحفظ دینے میں اس ادارے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
‘یو این ایف پی اے’ نے ‘انروا’ کو کمزور کرنے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خواتین اور لڑکیوں کو ضروری طبی نگہداشت کی فراہمی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ‘انروا’ کی موجودگی ضروری ہے، اس کا کوئی متبادل نہیں اور ناصرف جنگ کے دوران بلکہ اس کے بعد بھی اس کی خدمات جاری رہنی چاہئیں۔
‘انروا’ تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے علاوہ اردن، لبنان اور شام میں رہنے والے فلسطینی 50 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کو ضروری خدمات اور تحفظ مہیا کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش بھی کہہ چکے ہیں کہ کوئی اور امدادی ادارہ ‘انروا’ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
غزہ میں جاری جنگ کے دوران ‘انروا’ کی جانب سے فلسطینیوں کو مدد کی فراہمی بھی برابر جاری ہے۔ ادارے نے منگل کو بتایا تھا کہ جنوبی علاقے خان یونس میں اس کی ٹیموں نے ہزاروں بے گھر لوگوں میں آٹا اور دیگر ضروری امداد تقسیم کی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ میں قحط پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اور ان حالات میں انتہائی کمزور اور غیرمحفوظ لوگوں کو مدد کی فراہمی اور بھی ضروری ہو گئی ہے۔
امن کے لیے اپیل
ڈبلیو ایچ او مصر اور برطانیہ کے دفتر برائے دولت مشترکہ و ترقی نے غزہ سے آنے والے لوگوں کی طبی ضروریات پوری کرنے کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی فراہمی کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس شراکت کے تحت ‘ڈبلیو ایچ او’ مصر کی وزارت صحت اور اس کے شراکت داروں کو ان مریضوں کے لیے معیاری علاج کی فراہمی میں مدد دے گا۔
ادارہ اس مقصد کے لیے ضروری طبی آلات، سازوسامان، ادویات اور کیموتھراپی کی سہولیات مہیا کرے گا اور طبی عملے کی صلاحیتوں میں بہتری لانے کے اقدامات اٹھائے گا۔
اس سے پہلے ‘ڈبلیو ایچ او’ نے بتایا تھا کہ اگرچہ ایک سال کے دوران پانچ ہزار لوگوں کو علاج کے لیے مصر لے جایا گیا ہے لیکن اب بھی علاقے میں ایسے 10 ہزار لوگ موجود ہیں جنہیں ہمسایہ ممالک میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔
7 اکتوبر 2023 کے بعد مصر میں ڈبلیو ایچ او نے مقامی ہسپتالوں کو 20 لاکھ ڈالر سے زیادہ مالیت کا طبی سازوسامان مہیا کیا ہے جس میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں رکھے جانے والے بستر، دل کے مکینیکل والو، گردوں کی صفائی کرنے والی مشینوں کے لیے بلڈلائنز، آرتھوپیڈک سرجری کا سامان اور مریضوں کو سرجری سے پہلے بے ہوش کرنے کے لیے استعمال ہونے والی اشیا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ادارے نے جاپان کی مدد سے تقریباً 300 طبی کارکنوں کو تربیت بھی فراہم کی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے غزہ میں امن کی ضرورت کو ایک مرتبہ پھر واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے علاوہ تباہی، موت، بے گھری، بیماریاں، محرومی اور قحط بھی لوگوں کی جان کے درپے ہیں۔ امید ہے کہ دنیا کا ضمیر جاگے گا اور امن ہی سب سے بہتر دوا ہے۔
ہسپتالوں کی تباہی
جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے خبردار کیا ہے کہ شمالی علاقے میں کمال عدوان ہسپتال پر حملوں کے نتیجے میں وہاں خواتین کو بعد از زچگی ہنگامی نگہداشت کی فراہمی کا مرکز بند ہو گیا ہے جس کے بعد غزہ بھر میں ایسی کوئی سہولت باقی نہیں بچی۔
شمالی غزہ میں دیگر ہسپتالوں پر بھی حملے کیے گئے ہیں جن کے نتیجے میں تقریباً چار ہزار خواتین کے لیے حمل اور زچگی کے دوران درکار طبی خدمات تک رسائی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق خواتین زچگی کے دوران اور اس کے بعد طبی پیچیدگیوں کے باعث ہلاک ہو رہی ہیں۔
ادارے نے بتایا ہے کہ شمالی غزہ میں طبی خدمات فراہم کرنے والے 20 میں سے دو مراکز ہی کسی حد تک فعال رہ گئے ہیں۔ سڑکوں کی تباہی اور اسرائیلی فوج کی موجودگی کے باعث العودہ ہسپتال تک رسائی نہیں رہی۔
حاملہ خواتین کی مشکلات
‘یو این ایف پی اے’ نے بتایا ہے کہ کمال عدوان ہسپتال پر فضائی حملے میں طبی سازوسامان بھی تباہ ہو گیا۔ العودہ ہسپتال پر بمباری کے نتیجے میں دو بچوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ علاج معالجے کی سہولیات کو نقصان پہنچا اور انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں آکسیجن کی فراہمی بند ہو گئی۔
ایک واقعے میں زچگی کے بعد ایمبولینس گاڑی میں موجود ایک خاتون بم حملے میں ہلاک ہو گئی جبکہ اس کا بچہ محفوظ رہا۔
ادارے کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر غذائی عدم تحفظ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غذائی قلت کے باعث شمالی علاقے میں 14 ہزار حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کی صحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ علاقے میں قحط پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے جس کے باعث ان خواتین کو آئندہ مہینوں میں شدید غذائی قلت کے علاج کی ضرورت ہو گی۔