سوشل میڈیا پر مسجد کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے یوزرس کا دعویٰ ہے کہ “مولانا نے سعودی عرب کی مدینہ مسجد میں نماز جمعہ کے بعد جو خطبہ دیا، اس میں مولانا سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کر رہے تھے کہ وہ خواتین کو سٹیڈیم میں جانے کی اجازت دے رہے ہیں اور حجاب میں نرمی دے رہے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ پھر دیکھیں پولیس والے اسے کیسے گھسیٹ کر لے گئے۔
اسکے علاوہ کئی دوسرے یوزرس نے اس ویڈیو کو شیئر کیا اور اسی طرح کے دعوے بھی کیے۔ جسے یہاں، یہاں اور یہاں پر کلک کرکے دیکھا جا سکتا ہے۔
فیکٹ چیک
تحقیقات کرنے پر ڈی فریک نے پایا کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔ ہمیں اس خبر کے حوالے سے متعدد میڈیا رپورٹس ملیں۔ اسی تصویر کے ساتھ مارچ 2018 کو شائع ‘اخبار 24 کی خبر کے مطابق "یہ ویڈیو سعودی عرب میں جبریہ مسجد، یانبو کی ہے۔ اس میں مدینہ کے علاقے میں اسلامی امور، دعوت و رہنمائی کی وزارت کے سرکاری ترجمان ماجد المحمدی کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جنہوں نے کہا کہ اس ویڈیو میں ایک "ذہنی بیمار” شخص کو سیکیورٹی اہلکاروں کے ذریعے باہر نکالا جا رہا ہے۔
مزید برآں، ہمیں ‘الریاض’ سے 02 مارچ 2018 کو شائع ہونے والی ایک میڈیا رپورٹ ملی جس میں کہا گیا تھا کہ "مدینہ پولیس نے اس بیمار شخص کے بارے میں ایک بیان جاری کیا جس نے ینبو گورنریٹ میں جمعہ کا خطبہ دیا تھا، اس سے پہلے اسے زبردستی منبر سے ہٹا دیا گیا تھا، ۔ اور علاج اور دیکھ بھال کے لیے اسے اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
نتیجہ
ڈی فریک کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ وائرل ویڈیو 2018 کی ہے اور اس میں کسی امام کو سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔