افغانستان میں کابل اور حکومت پر طالبان کے قبضے کے تین سال ہونے اور اس دوران خواتین اور لڑکیوں پر تعلیم اور سماجی زندگی کے دروازے بند ہونے کے باوجود خواتین کے حقوق کا اقوام متحدہ کا ادارہ یو این وومن حقوق کے لئے لڑنے والی افغان عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ مشکل حالات میں بھی کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
افغانستان کے شہر فرح سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ لینا* کہتی ہیں: "میں نے صحافت میں تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور سات سال بطور صحافی کام کر چکی ہوں۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد مجھے اپنے کام سے وقفہ لینا پڑا کیونکہ میں ڈر گئی تھی۔”
لینا کو کسی نے جان سے مار دینے کی دھمکی نہیں دی۔ مگر 15 اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد کئی خواتین کو ایسی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ اس دوران طالبان حکومت ستر سے زائد سرکاری احکامات، ہدایات اور بیانات کے ذریعے زندگی کے تقریبا ہر شعبے میں عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق محدود کر چکی ہے جس سے جنسی برابری پر ہونے والے دہائیوں پر مشتمل کام اور حاصل کردہ ترقی کو مٹا دیا گیا ہے۔
تعلیم، روزگار اور آمد و رفت پر قدغنیں
دسمبر 2021 میں جاری کردہ ایک عدالتی فرمان کے مطابق اپنے گھر سے 77 کلومیٹر (47 میل) سے زیادہ سفر کرنے کی صورت میں افغان عورتوں کے ساتھ کسی مرد رشتہ دار کا ہونا لازم ہے۔ مگر ملک کے دوسرے حصوں میں اس سے کم سفر کی صورت میں بھی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ کوئی مرد سر پرست ان کے ساتھ ہو۔ اکیلے سفر کرنے پر چیک پوسٹوں پر انھیں روکا جاتا ہے اور ان سے تفتیش کی جاتی ہے۔ اس عمل میں کئی عورتوں کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔
اسی طرح مارچ 2022 سے افغان لڑکیوں پر سیکنڈری سکول جانے پر پابندی عائد ہے اور اسی سال کے آخر سے ان کا جامعات میں داخلہ بھی ممنوع کر دیا گیا تھا۔ یو این ویمن کی افغانستان پر تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تقریبا 11 لاکھ لڑکیاں سیکنڈری سکول کی عمر میں ہونے کے باوجود سکول جانے سے محروم ہیں۔ لڑکیوں کے لئے پرائمری سکول کھلے ہونے کے باوجود سماجی قوائد اور رسائی اور حفاظت سے جڑے مسائل کے سبب ان کے داخلوں کی شرح میں کمی آئی ہے۔
"عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہتی ہیں۔ وہ اپنے گھروں میں ہی نہیں بلکہ حکومت اور دیگر جگہوں پر فیصلہ کرنے کا حق چاہتی ہیں۔ وہ تعلیم چاہتی ہیں اور اپنے حقوق کی خواہاں ہیں۔”
طالبان کی طرف سے عائد مختلف قدغنوں کے باعث عورتوں کی مجموعی ملازمت میں مردوں کی نسبت واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ یو این ویمن کی حالیہ رپورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اگرچہ کچھ عورتیں ابھی تک نوکریاں کر رہی ہیں مگر ان کی ملازمت کے مواقع ایسی شعبوں میں محدود ہو گئے ہیں جو سماجی اقدار اور حکومتی قواعد پر پورا اترتے ہوں، جیسے عورتوں پر مشتمل گھریلو صنعتیں، سلائی کڑھائی، دستکاری، وغیرہ۔
لینا کہتی ہیں کہ "یہ پابندیاں عورتوں کو گھر کے ایک کونے تک محدود کر کے ان کی خود اعتمادی اور عزتِ نفس کو کم کر دیتی ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ وہ کس حال میں ہیں اور اس لئے ان کے لئے میرا آواز اٹھانا بہت اہم ہو گیا ہے۔ میں رپورٹس اور کہانیاں لکھ کر ان عورتوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ شاید میرے اس کام کی وجہ سے بین الاقوامی تنظیمیں ان کی آواز سن پائیں اور ان کی مدد کو آئیں۔”
لینا ان 147 خواتین میں بھی شامل ہیں جنہیں یو این ویمن کی جانب سے کمیونٹی میں رضاکارانہ سرگرمیاں کرنے اور ان کی کہانیاں سامنے لانے کی تربیت دی گئی تاکہ وہ افغانستان بھر میں عورتوں سے ان کے مسائل کے بارے میں مشاورت کریں اور بین الاقوامی کمیونٹی اور ڈی ایف اے کو ان کی ضروریات اور ترجیحات کے حوالے سے آگاہ کیا جا سکے۔
لینا کو اکتوبر 2023 میں مغربی افغانستان میں آنے والے زلزلوں سے متاثرہ عورتوں کے انٹرویو کرنے کی ذمہ داری بھی دی گئی۔
"اس مشاورت کے عمل میں شامل ہونے والی خواتین اس بات کی بہت قدر کرتی ہیں کہ انھیں سنا جا رہا ہے۔” لینا کہتی ہیں۔ "مجھے ایک خاتون یاد ہیں جو طالبان حکومت سے پہلے ایک استانی تھیں اور سماجی تنظیم چلاتی تھیں۔ وہ ایک بیوہ ہیں اور ان کی دو بیٹیاں ہیں، مگر طالبان کے حکومت میں آنے اور عورتوں پر قدغنوں کے بعد ان کی تنظیم بند کر دی گئی اور ان کے لئے کوئی ذریعہ معاش نہیں بچا۔ ان کی ایک بیٹی نے خودکشی کر لی جس کے بعد وہ شدید ذہنی مسائل کا شکار ہو گئیں۔ مگر مجھ سے بات کر کے وہ بہت خوش ہوئیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ تین سال میں پہلے دفعہ کسی نے ان سے ان کی زندگی اور جذبات کے بارے میں پوچھا۔”
2023 میں طالبان کے حکومت میں آنے کی تین سال بعد کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق آٹھ فیصد لوگ کم از کم ایک عورت یا لڑکی کو جانتے ہیں جس نے اگست 2021 سے اب تک خودکشی کی کوشش کی ہو۔ اسی طرح اگست اور اکتوبر 2023 کے درمیان کی گئی مشاورتوں میں 18 فیصد خواتین نے بتایا کہ وہ آخری تین ماہ میں اپنے قریبی خاندان سے باہر کسی عورت سے ایک بار بھی نہیں ملیں۔
خواتین تعلیم و روزگار کا حق چاہتی ہیں
8 مارچ 2021 کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سابق صحافی اور استاد حوا* نے مغربی افغانستان میں ایک ریڈیو سٹیشن قائم کیا۔ عورتوں پر مشتمل یہ ریڈیو سٹیشن افغانستان میں ایک انوکھا ادارہ ہے اور یہ آج تک قائم ہے۔ ریڈیو فیم* صوبہ بھر میں عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق کی آگہی اور تعلیم کے لئے کام کرتا ہے۔
حوا کہتی ہیں کہ ان کے سٹیشن سے بہت سی عورتوں نے رابطہ کیا اور ان کی وراثت سے متعلق ان کے حقوق کے بارے میں آگہی دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ "یہ عورتیں مجھے بتاتی ہیں کہ ہمارے ریڈیو سے اپنے حقوق کے بارے میں جان کر وہ اپنے خاندان سے اپنے حق مانگنے کے قابل ہوئیں۔ میرے لئے یہ بہت بڑی بات ہے کہ ہمارے ریڈیو نے ان عورتوں کی مدد کر کے انھیں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کے قابل بنایا۔”
تقریبا ساٹھ سے ستر ہزار لوگ ریڈیو فیم سنتے ہیں اور ان کی سماجی ویب سائٹس پر موجود مواد دیکھتے ہیں۔ یہ مواد پشتو اور دری زبان میں ہوتا ہے جو افغانستان میں بولی جانے والے دو مقبول ترین زبانیں ہیں۔
اس ریڈیو سٹیشن میں آٹھ استاد مختلف مضامین پڑھاتے ہیں جن میں ساتویں سے بارھویں جماعت تک کے لئے ریاضی اور سائنس شامل ہیں۔
یو این ویمن نے ریڈیو فیم کے پروجیکٹ کی مدد خواتین کی تنظیموں کی معاونت کے لئے قائم کردہ اپنے ایک پروگرام کے ذریعے کی، جس میں تنظیموں کو فنڈنگ اور صلاحیت سازی کی تربیت فراہم کی گئی تاکہ اس کی بدولت وہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کر سکیں اور سازوسامان خرید سکیں۔ اپریل 2024 تک یو این ویمن نے 19 صوبوں میں 113 تنظیموں کے ساتھ شراکت داری کی ہے اور 515 خواتین ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں معاونت فراہم کی ہے۔
افغانستان میں یو این ویمن کی خصوصی نمائندہ ایلسن ڈیوڈین کہتی ہیں کہ "ایسے اقدامات خواتین اور لڑکیوں میں امید پیدا کرتے ہیں۔ اس قسم کی معاونت خواتین کی تحریک کو برقرار رکھنے اور عوامی زندگی سے خواتین کو منظم طریقے سے غائب کرنے کے خلاف جدوجہد کے لیے بہت اہم ہے۔”
تعلیم، آگہی اور امید کا ٹی وی چینل
اس سال سے آغاز میں بیگم ٹی وی، جو بیگم آرگنائزیشن فار ویمن نے شروع کیا تھا، امید کی نئی کرن بن کر ابھرا ہے۔ پیرس سے نشر ہونے والا یہ چینل افغانوں کے لیے سیٹلائٹ کے ذریعے تعلیمی پروگرام فراہم کرتا ہے اور ہر رات تین گھنٹے کا "ایجوٹینمنٹ” ٹاک شو پیش کرتا ہے۔
محمد* افغانستان کے وسطی پہاڑی علاقے میں مقیم ایک استاد اور دو لڑکیوں کے والد ہیں۔ وہ ان شوز کو بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ ان پروگرامز میں انھیں روشنی کی ایک جھلک دکھائی دیتی دی: "میرا خواب اس وقت پورا ہوا جب میں نے بیگم اکیڈمی کے بارے میں سنا۔ یہ تعلیم ہی نہیں فراہم کرتی بلکہ ہزاروں لڑکیوں کے مستقبل کے لیے امید بھی پیدا کرتی ہے۔”
بیگم ٹی وی کے پروگراموں میں مختلف جماعتوں کے مطابق روزانہ کلاسیں شامل ہیں جو دری اور پشتو زبانوں میں فراہم کی جاتی ہیں۔ ان میں طلباء کو آن لائن گھر سے سیکھنے اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ بیگم اکیڈمی، جو نومبر 2023 میں ایک آن لائن پلیٹ فارم کے طور پر شروع کی گئی، نے ساتویں سے بارہویں جماعت تک درسی اور پشتو زبانوں میں افغان نصاب فراہم کیا ہے اور آن لائن ٹیوٹر سپورٹ بھی فراہم کی ہے۔
"بیگم اکیڈمی میں رجسٹر ہونے سے پہلے ہم بہت مایوس تھیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم یہاں اپنی تعلیم کو مکمل کر سکتی ہیں،” کریمہ* کہتی ہیں جو وہ افغانستان بھر میں 4,000 سے زائد طلباء میں شامل ہیں جو مفت آن لائن تعلیمی کورسز سے استفادہ کر رہی ہیں۔
رات کے وقت نشر ہونے والے اس پروگرام نے اپنے ناظرین کی مختلف سماجی مسائل سے متعلق آگاہی میں اضافہ کیا ہے، جن میں خواتین کے حقوق، ذہنی صحت اور طبی معلومات شامل ہیں۔ یہ پروگرام صحت سے متعلق مفت مشاورت بھی فراہم کرتا ہے اور والدین کو اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
بیگم ایسی خواتین صحافیوں کو بھی بااختیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے جنہوں نے طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد اپنی نوکریاں کھو دی تھیں۔
یو این ویمن نے 2022 میں بیگم کی معاونت کرنا شروع کی۔ یو این ویمن کی خصوصی نمائندہ ایلسن ڈیوڈین کہتی ہیں کہ "تمام پابندیوں کے باوجود بیگم جیسی تنظیمیں کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے معلومات تک رسائی پیدا کر رہی ہیں اور انھیں قیادت اور تعلیم کے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ یہ کام افغان خواتین کی مزاحمت اور ان میں تبدیلی اور جدت کی صلاحیت کی مثال ہے۔”
خواتین کی قیادت میں قائم ہونے والا ہر ادارہ افغان خواتین کی شاندار مزاحمت کی مثال ہے۔
*لوگوں، سٹیشنوں اور جگہوں کے نام ان کی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لئے تبدیل کئے گئے ہیں۔