سوشل میڈیا پر ایک ملیالم اخبار کی نیوز کٹنگ وائرل ہو رہی ہے۔ اس نیوز کٹنگ میں طلباء کے نام اور ان کے رینک لکھے گئے ہیں۔ اس نیوز کٹنگ کو شیئر کرتے ہوئے یوزرس دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہاں دی گئی تصویریں نیٹ یوجی کے سوالیہ پیپر لیک ہونے سے فائدہ اٹھانے والوں کی ہیں، ایک نظر ڈالیں اور اندازہ لگائیں کہ وہ کون ہیں اور کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سب صرف مسلمان ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور یوزر نے ملیالم میں ایک کیپشن لکھکر دعویٰ کیا، “اگر آپ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ نیٹ امتحان میں سوالیہ پرچہ کیسے جوڑا گیا ، اس کے پیچھے کس نے کام کیا اور کس کواس سے فائدہ ہوا، تو اس میں دیئے گئے نام اور ان کے نمبر دیکھیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت اچھا کام کر رہی ہے، اگر سوڈاپی اعلیٰ عہدوں پر ہیں تو یہ سب کچھ یہاں ہو گا۔ (اردو ترجمہ)
فیکٹ چیک
ڈی فریک ٹیم نے وائرل دعوے کی تحقیقات کی۔ ہم نے پہلے طلبہ کی فہرست دیکھی۔ ہم نے پایا کہ اس فہرست میں شامل تمام طلباء مسلم نہیں ہیں۔ اس فہرست میں وگنیش، ورشا پی، جمیش کرشنن، انامیکا ایس اور نونیت اے وی کے نام شامل ہیں، جو مسلمان نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ ہماری ٹیم نے پایا کہ وائرل نیوز کٹنگ میں دیے گئے اعداد و شمار اور گراف 6 جون 2024 کو ملیالم زبان کے اخبار ’ماتر بھومی‘ کی ویب سائٹ پر ایک خبر میں بھی شائع کیے گئے ہیں۔
اس کے بعد ہماری ٹیم نے ’ماتر بھومی‘ اخبار کی ویب سائٹ پر اس کا آرکائیو ورژن دیکھا۔ ہمیں آرکائیوز میں 6 جون 2024 کو ملیالم زبان میں شائع وہی اشتہار ملا ، جو کوٹاکل یونیورسل انسٹی ٹیوٹ نے نیٹ امتحان میں طلباء کے کوالیفائی کرنے کے بعد دیا تھا۔
جس کا گوگل امیج ٹرانسلیشن کے بعد انگریزی میں ترجمہ درج ذیل ہے۔
اسکے علاوہ، ہمیں NDTV کی ایک رپورٹ ملی، جس میں بتایا گیا ہے کہ مرکزی حکومت نے امتحان منسوخ کرنے سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ ایسا مانا گیا کہ یہ پیپر لیک صرف مقامی سطح پر ہوا ہے اور بہار کے صرف چند طلباء ہی اس سے فائدہ اٹھائے ہیں۔ اس معاملہ میں ایک طالب علم اور تین دیگر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
نتیجہ
ڈی فریک کے اس فیکٹ چیک سے بہت سے حقائق واضح ہو رہے ہیں۔
نمبر ایک – وائرل اسکرین شاٹ ایک انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے دیے گئے اشتہار کا ہے، جس میں نیٹ کا امتحان پاس کرنے والے طلباء موجود ہیں۔ اس لیے اس اشتہار کو نیٹ پیپر لیک کے استفادہ کنندہ طلبا کا کہنا غلط ہے۔
نمبر دو – وائرل اسکرین شاٹ میں بہت سے طلباء دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے تمام طلباء کے مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی غلط ہے۔
نمبر تین – یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ پیپر لیک سے فائدہ اٹھانے والے سارے کے سارے مسلمان ہیں۔