امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے کہا ہے کہ ادارے کی امدادی ٹیمیں اور اس کے شراکت دار مشکل ترین حالات کے باوجود غزہ میں امدادی کام کیے جا رہے ہیں اور اسے کسی صورت روکا نہیں جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ نے ایسا کوئی انتباہ جاری نہیں کیا کہ سلامتی کی صورتحال اور اسرائیلی فوج کے ساتھ اشتراک عمل میں بہتری نہ آئی تو غزہ میں امداد کی فراہمی کا عمل معطل ہو سکتا ہے۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے مارٹن گرفتھس نے یہ بات اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل یو این نیوز کو انٹرویو میں کہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ نو مہینوں کی طرح اب بھی اسرائیلی حکام کے ساتھ امداد کی فراہمی کے معاملے پر بات چیت جاری ہے۔ امداد کی محفوظ طریقے سے فراہمی کے لیے حالات سازگار بنانے میں امریکہ سے بھی بہت سی مدد مل رہی ہے۔
‘مدد جاری رہے گی’
مارٹن گرفتھس نے کہا کہ اقوام متحدہ غزہ سے واپس نہیں جا رہا۔ ادارے کو علاقے میں سلامتی کی صورتحال پر خاص تشویش ہے اور وہاں کام کرنا روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
امداد سے فرق پڑ سکتا ہے اور اسی لیے تمام سرحدی راستے کھلے رکھنے کی ضرورت ہے۔ امدادی اداروں کو تحفظ اور سلامتی کی ضرورت ہے، غزہ کے ساحل پر امریکہ کی تیرتی گودی کو دوبارہ فعال بنانے اور سمندری راستے سے امداد لانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے سبھی کا ساتھ درکار ہے۔
انہوں نے یہ بات ایسے موقع پر کہی ہے جب غزہ میں غذائی تحفظ کی صورتحال پر ‘آئی پی سی’ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب تک جنگ اور امداد کی رسائی میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک غزہ میں قحط کا خطرہ برقرار رہے گا۔
سیاسی مسئلہ
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں اصل مسئلہ سیاسی ہے اور اسی کے حل پر تمام کوششیں مرکوز ہونی چاہئیں۔ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں بہت سی سیاسی بات چیت اور ثالثی کے اقدامات جاری ہیں۔اگر سوڈان جیسی جگہوں پر بھی ایسی کوششیں ہوں تو وہاں حالات کو بہتر بنانے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
اسرائیل پر حماس کے حملوں سے شروع ہونے والی جنگ کو نو ماہ مکمل ہونے کو ہیں تاہم اب بھی علاقے بھر میں اسرائیلی فوج کی جانب سے شدید حملے جاری ہیں جن میں شہریوں کے نقصان کے علاوہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی، رہائشی عمارتوں اور شہری خدمات کی تباہی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
غزہ پر شدید حملے
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) نے حالیہ دنوں وسطی غزہ میں شدید حملوں کی اطلاع دی ہے۔ ان کارروائیوں میں برویجی، مغازی اور نصیرت کے پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے زمینی حملے میں وسعت آ رہی ہے اس میں غزہ شہر کے جنوبی علاقوں اور مشرقی رفح کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جس سے مزید تکالیف پیدا ہونے اور انسانی امداد کی ترسیل غیرمستحکم ہونے کا خدشہ ہے۔
غزہ کی جنگ کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کے خلاف مہلک تشدد جاری ہے۔ اس کے ساتھ اسرائیل اور لبنان میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کے مابین کشیدگی خطرناک حدود کو چھونے لگی ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ فریقین کے مابین کوئی ایک غلط فہمی پورے خطے اور اس سے پرے سنگین تباہی لا سکتی ہے۔
‘امن کی ضمانت جنگ نہیں’
رابطہ کار نے کہا کہ ہر سال جنگ پر 2 ٹریلین ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں انسانی امداد پر خرچ کی جانے والی رقم بہت کم ہے جو کہ شرمناک بات ہے۔ اس تصور سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے کہ جنگ پر خرچ کیے جانے والے 2 ٹریلین ڈالر سے دنیا میں سلامتی کے قیام میں مدد ملتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگ سے دنیا کو تحفظ کی فراہمی ممکن نہیں۔ امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کو ایک دوسرے سے مہربانی پر مبنی برتاؤ کرنا ہو گا۔
جنگ زدہ علاقوں میں اور سفارتی امور پر کام کے اپنے چار سالہ تجربے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی امدادی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ضرورتوں اور طویل ہنگامی حالات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور سول سوسائٹی، دنیا بھر کی حکومتوں اور علاقائی اداروں کو اس حقیقت پر غور کرنا ہو گا کہ دنیا میں طاقت کی ازسرنو تقسیم ناگزیر ہے۔
14 کروڑ 40 لاکھ لوگوں کی مدد
مارٹن گرفتھس نے غزہ کے علاوہ دنیا بھر میں پیش آنے والے ہنگامی حالات میں لوگوں کو مدد پہنچانے کے لیے ادارے کے کردار کا دفاع بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے گزشتہ برس 14 کروڑ 40 لاکھ لوگوں کو امداد پہنچائی۔ مدد کی فراہمی میں امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے لیے نچلی سطح پر کام کرنے والوں کا بہت اہم کردار ہے۔
جہاں بہت بڑی تعداد میں لوگ اقوام متحدہ کی جانب سے امداد وصول کر رہے ہیں وہیں لاکھوں ایسے بھی ہیں جنہیں مالی وسائل کی قلت کے سبب مدد نہیں مل رہی۔
امدادی کام کی اہمیت
مارٹن گرفتھس نے کہا کہ ضرورت مند لوگوں کی خاطر امدادی کام جاری رہنا چاہیے اور اس ضمن میں درپیش مشکلات کے بجائے ان لوگوں کے حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جنہیں اس مدد کی ضرورت ہے۔
سوڈان کے اپنے دورے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہاں یہی کچھ دیکھنے کو ملا ہے جہاں اقوام متحدہ کی امدادی ٹیمیں مشکلات کے باوجود پیچھے نہیں ہٹیں اور اپنا کام کر رہی ہیں۔
ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار کا عہدہ ادارے میں تھکا دینے والا کام سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس عہدے پر رہتے ہوئے متواتر سفر کرنا پڑتا ہے۔ مارٹن گرفتھس نے اس تجویز کو مسترد کیا کہ وہ جنیوا میں نسبتاً آرام سے رہتے ہوئے اقوام متحدہ کے لیے کام کر سکتے ہیں جہاں وہ اور ان کا خاندان کئی سال مقیم رہے ہیں۔
مارٹن گرفتھس نے اپنی جگہ لینے والی شخصیت کے بارے میں بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر آپ نے کسی کی زندگی بچائی ہے تو یہ بہت بڑا کام ہے۔ ایسا کرنے والے لوگوں اور امدادی کارکنوں کا دلیرانہ جذبہ حیران اور قابل قدر ہے۔