فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے فلسطینیوں کو غربت، نفرت، انتقام اور جنگ کا سامنا ہے۔ اگر بلاتاخیر امدادی وسائل مہیا نہ کیے گئے تو ان کی پوری نسل کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔
کمشنر جنرل نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے غزہ کے لیے سیاسی و مالی تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘انرا‘ کو غزہ میں بے رحمانہ اور متواتر بمباری کے نتیجے میں لوگوں کی مدد کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ نو ماہ سے جاری جنگ میں ادارے کو جس قدر دباؤ کا سامنا ہے وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
انہوں نے جنیوا میں ‘انرا’ کے مشاورتی کمیشن کو بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں ادارے کے 193 اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی ہے اور اس کے 180 سے زیادہ مراکز تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ ایسے بیشتر حملے اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے ‘انرا’ کی پناہ گاہوں پر ہوئے جن میں کم از کم 500 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔
These shocking pictures show the Jabalia Health Centre, before and after this devastating war.
— UNRWA (@UNRWA) June 24, 2024
Before the war, @UNRWA met 70-80% of primary healthcare needs in #Gaza.
Only a fraction of @UNRWA’s health centres remain operational, with minimal access to supplies.#CeasefireNow pic.twitter.com/G57lusufBP
چھ لاکھ بچے تعلیم سے محروم
کمشنر جنرل کا کہنا تھا کہ غزہ کے 625,000 سے زیادہ بچے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں پناہ گزین ہیں جہاں انہیں تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے ان میں سے تقریباً 300,000 بچے ‘انرا’ کے 290 سکولوں میں زیرتعلیم تھے لیکن اب یہ سلسلہ منقطع ہو چکا ہے اور سکول پناہ گاہوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
ان بچوں کو تشدد، استحصال، بچہ مزدوری، نوعمری کی شادی اور مسلح گروہوں کی جانب سے جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کیے جانے کا سامنا ہے۔
‘انرا’ کی عمارتیں اسرائیل، حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں کی جانب سے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ اسرائیلی حکام کو امدادی سرگرمیوں کی اطلاع دیے جانے کے باوجود ادارے کے امدادی قافلوں پر حملے ہوتے رہے ہیں اور ان کے لیے کام کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ علاقے میں نظم و نسق ختم ہو رہا ہے، امدادی سامان کی لوٹ مار اور سمگلنگ عام ہونے لگی ہے جس سے انتہائی ضروری امداد کی فراہمی تاخیر کا شکار ہے۔ غزہ کے لوگ گویا جہنم میں رہ رہے ہیں جہاں خوراک اور پانی کی قلت کے باعث بچوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں جبکہ ان دونوں بنیادی ضروریات زندگی سے بھرے ٹرک علاقے میں داخلے کی اجازت کے منتظر ہیں۔
مغربی کنارے کی بگڑتی صورتحال
فلپ لازارینی نے مقبوضہ مغربی کنارے کے مخدوش حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال 7 اکتوبر کے بعد علاقے میں اسرائیلی فوج اور آبادکاروں کے ہاتھوں 500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
آبادکاروں کے روزانہ حملے، عسکری کارروائیاں اور گھروں سمیت عمارتوں کی تباہی فلسطینیوں کو الگ تھلگ کرنے اور ان پر جبر ڈھانے کی منظم اسرائیلی مہم کا حصہ ہے۔ ’انرا‘ کے سربراہ نے کہا کہ فلسطینیوں کو نکبہ کے بعد سب سے بڑے المیے کا سامنا ہے۔
عربی اصطلاح ’نکبہ‘ کا مطلب تباہی ہے اور اسے تاریخی طور پر 1948 میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور ان کے سماج کو شکست و ریخت میں مبتلا کرنے کی دانستہ اسرائیلی کوششوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
لبنان: مکمل جنگ کا خطرہ
کمشنر جنرل نے کہا کہ اسرائیل۔لبنان سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی مکمل جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقے، لبنان، شام اور اردن میں خوف و اندیشوں کا شکار لاکھوں فلسطینی پناہ گزین غزہ اور مغربی کنارے میں پیش آنے والے واقعات کو پریشانی سے دیکھ رہے ہیں۔
ایسے بیشتر لوگ کئی نسلوں سے کیمپوں میں مقیم ہیں جنہیں عموماً بہت کم حقوق حاصل ہوتے ہیں اور متواتر غربت کا سامنا رہتا ہے۔ یہ لوگ مسئلہ فلسطین کے ایسے حل کے منتظر ہیں جس سے ان کے مصائب کا خاتمہ ہو سکے۔ 1948 میں 750,000 فلسطینیوں کی بے گھری (نکبہ) کے بعد اب ان کی آنکھوں کے سامنے ایک اور بہت بڑا فلسطینی المیہ رونما ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 75 سال کی طرح اب بھی تحفظ اور بنیادی انسانی حقوق کی تکمیل کے لیے ‘انرا’ ہی ان کا لوگوں کا واحد سہارا ہے۔