جنوبی اور وسطی غزہ میں بڑھتی ہوئی لڑائی اور لوگوں کی مایوسی سے پیدا ہونے والی لاقانونیت کے باعث علاقے میں غذائی امداد کی فراہمی ناممکن ہو گئی ہے۔
عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے نائب ایگزیکٹو ڈائریکٹر کارل سکو نے علاقے کا دورہ کرنے کے بعد بتایا ہے کہ غزہ شہر سے جبالیہ تک ناقابل یقین تباہی پھیلی ہے۔ شمالی غزہ میں کوئی ایک عمارت بھی سلامت نہیں رہی اور علاقے میں متواتر بمباری ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے لوگ تکالیف، تھکاوٹ اور مایوسی کا شکار ہیں۔ اسرائیل کے حملوں میں اپنے شوہر کو کھو دینے والی ایک خاتون نے انہیں بتایا کہ اس جنگ کو 250 روز ہو گئے ہیں لیکن ان کے لیے یہ عرصہ 250 سال کے برابر ہے۔
📍As fighting escalates in the south and centre of #Gaza, the toll on civilians is devastating.
— World Food Programme (@WFP) June 14, 2024
From the ground, WFP's @CarlSkau warns the continued hostile operating environment makes it near-impossible for humanitarian operations to deliver desperately needed food aid.
تباہ کن بھوک پھیلنے کا خطرہ
‘ڈبلیو ایف پی’ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جنوبی غزہ میں بھی شمالی علاقے جیسی تباہ کن بھوک پھیل سکتی ہے۔ کارل سکو کا کہنا ہے کہ علاقے میں حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ 10 لاکھ لوگوں کو رفح سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے اور وہ شدید گرمی میں ساحلی علاقے سے متوازی چھوٹی سی جگہ پر پھنس گئے ہیں جہاں گندا پانی دریا کی صورت میں بہہ رہا ہے۔
‘ڈبلیو ایف پی’ نے بتایا ہے کہ شمالی غزہ میں امداد کی فراہمی میں قدرے بہتری آئی ہے جہاں اس کے شراکت دار مغربی ایریز کے سرحدی راستے سے امدادی سامان فراہم کر رہے ہیں۔ تاہم یہ فراہمی متواتر اور بڑی مقدار میں ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ صاف پانی، طبی سہولیات، تنوروں کے لیےایندھن اور طبی سازوسامان کی بھی اشد ضرورت ہے۔
کارل سکو نے کہا ہے کہ سب سے بڑھ کر، غزہ کے لوگ اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اقوام متحدہ کا بھی اسی پر اصرار ہے۔
عدم تحفظ اور لاقانونیت
غزہ میں پھیلتی لاقانونیت کے باعث کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے امداد کی فراہمی کا کام شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ ‘ڈبلیو ایف پی’ کے لیے بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق امداد فراہم کرنا ممکن نہیں رہا۔
کارل سکو کا کہنا ہے کہ ادارے کے عملے کو روزانہ اسرائیلی فوجی چوکیوں پر پانچ سے آٹھ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ متحارب فریقین کو امدادی اداروں کے مراکز کی نشاندہی کر کے ان پر حملے نہ ہونے کی ضمانت لی جا چکی ہے لیکن اس کے باجود میزائل تواتر سے ان مراکز پر گرتے ہیں۔ نظم و نسق ختم ہو جانےکے باعث امدادی قافلوں کو لوٹنے اور عملے کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات بھی پیش آ رہے ہیں۔
مقامی منڈیوں کے لیے امداد
ان کا کہنا ہے کہ ‘ڈبلیو ایف پی’ غزہ کی مقامی منڈی کو فعال کرنے اور لوگوں کو نقد رقم مہیا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو بحال کر سکیں۔ ہنگامی امداد بھی ضروری ہے لیکن تنوروں اور منڈیوں کو مدد دے کر لوگوں کو قدرے امید دینے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں، زندگی کی بقا کے لیے نکاسی آب اور بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی بھی درکار ہے۔
مزید باوقار مدد اسی طرح بحال کی جا سکتی ہے کہ اس کی بدولت بنیادی غذائی ضروریات کی فراہمی کے علاوہ بھی لوگوں کی زندگیوں میں آسانی لائی جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس نومبر میں جب انہوں نے غزہ کا دورہ کیا تو لوگ غصے کی کیفیت میں تھے۔ اب وہ تھکے ہارے ہیں اور اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ کارل سکو نے غزہ کے علاوہ مغربی کنارے اور یروشلم کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے اپنے ادارے کے عملے، شراکت داروں اور فلسطینیوں سے ملاقاتیں کیں۔
امداد کی رسائی میں رکاوٹوں اور خوراک کا ذخیرہ کم ہو جانے کے باوجود ‘ڈبلیو ایف پی’ نے مئی میں مغربی کنارے اور غزہ میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو مدد فراہم کی تھی۔