اقوام متحدہ کے غیرجانبدارانہ تحقیقاتی کمیشن نے کہا ہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملوں میں فلسطینی مسلح گروہوں اور اس کے بعد غزہ میں عسکری کارروائیوں کے دوران اسرائیل نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ آٹھ ماہ سے جاری جنگ میں نقصان، مایوسی، انتقامی کارروائیوں اور مظالم کے نتیجے میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی بے پایاں تکالیف میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس تنازع میں بااختیار لوگوں کے فیصلوں کی قیمت عام شہریوں نے چکائی ہے جبکہ خواتین اور بچے اس جنگ کے سب سے بڑے متاثرین ہیں۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں، مشرقی یروشلم اور اسرائیل میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے والے کمیشن نے یہ بات آج جاری ہونے والی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتائی ہے۔
.@UN Commission of Inquiry on the Occupied Palestinian Territory, including East Jerusalem, & Israel says Israeli authorities responsible for #warcrimes & #crimesagainsthumanity in Gaza; Palestinian armed groups responsible for war crimes in Israel https://t.co/pgjqGN1qYw#HRC56 pic.twitter.com/L9gzeqK566
— United Nations Human Rights Council (@UN_HRC) June 12, 2024
عالمی قانون پر عملدرآمد کا مطالبہ
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں زور دیا ہے کہ اسرائیل پر حملے اور اس کی غزہ میں جوابی کارروائی کو ایک دوسرے سے الگ نہیں دیکھنا چاہیے۔ تشدد کے اس سلسلے اور فریقین کی جانب سے جارحیت اور انتقامی کارروائی کو بند کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون پر پوری طرح عملدرآمد کیا جائے۔
اس میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقے پر غیر قانونی قبضے، فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک، انہیں حق خود اختیاری دینے سے انکار کی پالیسی کا خاتمہ اور یہودیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے امن و سلامتی کی ضمانت بھی شامل ہے۔
شہریوں پر دانستہ حملے
کمیشن نے کہا ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں اور لڑائی میں حصہ لینے والے دیگر فلسطینیوں نے اسرائیل میں لوگوں کو دانستہ طور پر ہلاک و زخمی کیا۔ انہوں نے اسرائیلی شہریوں اور غیرملکیوں سے بدسلوکی کا ارتکاب کیا، لوگوں کو یرغمال بنایا اور ان کے خلاف جنسی و صنفی بنیاد پر تشدد کیا۔
اسرائیلی سکیورٹی فورسز (آئی ایس ایف) کے ارکان کے خلاف بھی یہی کچھ کیا گیا جن میں زخمی فوجی بھی شامل تھے۔ یہ افعال جنگی جرائم کے مترادف اور بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔
کمیشن کو اسرائیل میں ایسے شواہد بھی ملے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اسرائیلی خواتین ان جرائم سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہوئیں۔
اسرائیلی حکام کی ناکامی
رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر کو اسرائیلی حکام جنوبی اسرائیل میں تقریباً ہر جگہ شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہے۔ انہیں لوگوں کو بچانے کے لیے مناسب تعداد میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی میں بھی ناکامی ہوئی۔
بہت سے مقامات پر اسرائیلی فوج نے ‘ہینی بال حکم نامے’ کا نفاذ کیا جس کے نتیجے میں 14 اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق اس حکم نامے کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کے اہلکاروں کو دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بچایا جائے چاہے اس میں اپنے ہی شہریوں کے نقصان کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔
کمیشن نے بتایا ہے کہ اسرائیلی حکام حماس کے حملوں کے بعد منظم طور سے فارنزک شہادتیں جمع کرنے میں ناکام رہے۔ خاص طور پر مبینہ جنسی جرائم کی شہادتوں کے حصول میں کوتاہی برتی گئی جس کے نتیجے میں آئندہ ممکنہ قانونی کارروائی، احتساب اور انصاف کے امکانات کو نقصان پہنچا۔
بین الاقوامی قوانین کی پامالی
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر حملے میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔ بہت بڑے پیمانے پر شہریوں کے نقصان اور وسیع پیمانے پر شہری تنصیبات کی تباہی زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے اسرائیل کی دانستہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اپنے حملوں میں طاقت کے متناسب استعمال اور شہریوں کو نقصان سے بچانے سے گریز کیا جو کہ غیرقانونی ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے بھاری ہتھیاروں کا گنجان آباد علاقوں میں استعمال شہری آبادی پر دانستہ اور براہ راست حملے کے مترادف ہے۔ ایسی کارروائیوں سے خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نقصان ہوا جبکہ اسرائیل کی اس پالیسی یا عسکری حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
کمیشن کی سفارشات
میشن نے اسرائیلی حکومت سے کہا ہے کہ وہ غزہ میں شہریوں کو ہلاک و زخمی کرنا بند کرے، علاقے کا محاصرہ ختم کرے اور جنگ بندی عمل میں لائے۔ ان حملوں میں جن فلسطینیوں کی املاک تباہ ہوئی ہیں ان کے نقصان کی تلافی کی جائے اور شہریوں کی صحت و بہبود کے لیے درکار چیزوں کی انہیں فوری فراہمی یقینی بنائی جائے۔
تحقیقاتی کمیشن نے فلسطینی ریاست کی حکومت اور غزہ کے حکام سے کہا ہے کہ وہ علاقے میں یرغمال بنائے گئے تمام لوگوں کی فوری و غیرمشروط رہائی اور ان کا جنسی و صنفی بنیاد پر تشدد سے تحفظ یقینی بنائیں۔ یرغمالیوں کی صحت کے بارے میں آگاہی دیں، انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کو ان تک رسائی دیں، ان کا اپنے خاندانوں اور معالجین سے رابطہ کروائیں اور انہیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق طبی سہولیات فراہم کریں۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ شہری آبادیوں پر راکٹوں، مارٹر اور دیگر اسلحے سے کیے جانے والے اندھا دھند حملے بھی بند کیے جائیں۔
اسرائیلی ردعمل
اسرائیل نے غیرجانبدار کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں اس کے مستقل مشن نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ اسرائیل کے خلاف سیاسی بنیادوں پر منظم امتیاز کی عکاسی کرتی ہے اور اس میں اسرائیلی فوجیوں اور حماس کے جنگجوؤں کے افعال کو ایک جیسا قرار دینا بھی متعصبانہ ہے۔
تحقیقاتی کمیشن
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقے اور اسرائیل میں بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی پامالیوں کی تحقیقات کے لیے 13 اپریل 2021 کو یہ غیرجانبدار کمیشن قائم کیا تھا۔
اس کمیشن کی رپورٹ 19 جون کو کونسل کے 56ویں اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ اس کے ساتھ دو دستاویزات بھی منسلک ہیں جن میں اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں اور 2023 کے اختتام تک غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
کمیشن کے ارکان اقوام متحدہ کے عملے کے رکن نہیں ہیں اور اپنے کام کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کرتے۔