مصنوعی ذہانت پر اقوام متحدہ کی سالانہ کانفرنس جمعہ کو جنیوا میں ختم ہو گئی ہے جس میں گمراہ کن اطلاعات اور ڈیپ فیک سے موثر تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ ٹیکنالوجی کی نگرانی اور اس کے مفید استعمال کا معاملہ موضوع بحث رہا۔
دو روزہ کانفرنس میں دنیا بھر سے آئے ماہرین نے مصنوعی ذہانت کے انتظام کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔ علاوہ ازیں، اس میں یہ جائزہ بھی لیا گیا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اس ٹیکنالوجی سے کیسے کام لیا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر مصنوعی ذہانت کے ساتھ انسانوں کی بات چیت اور تعامل کے متعدد پہلووں پر تبادلہ خیال ہوا۔ علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت کے فوائد اور نقصانات پر کئی طرح کے نقطہ ہائے نظر پیش کیے گئے۔ شرکا نے مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس سے مل کر اس ٹیکنالوجی کی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ بھی لگایا۔
ڈیپ فیک کا توڑ
بین الاقوامی مواصلاتی یونین (آئی ٹی یو) میں شعبہ سٹریٹیجک انگیجمنٹ کے سربراہ فریڈرک ورنر نے ایسے ضوابط تیار کرنے کی ضرورت واضح کی جن سے گمراہ کن اطلاعات کے پھیلاؤ اور ڈیپ فیک کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے کئی طریقوں سے کام لیا جا سکتا ہے۔ ان میں واٹر مارکنگ بھی شامل ہے جو دراصل دکھائی نہ دینے والے دستخط یا ڈیجیٹل فنگر پرنٹ ہوتے ہیں۔ ان کی بدولت صارفین کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی کسی چیز یعنی تصویر، آڈیو اور ویڈیو وغیرہ میں کوئی ترمیم کی گئی ہے یا نہیں اور آیا یہ مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی ہے یا حقیقی ہے۔
چوکسی کی ضرورت
یو این نیوز نے اس کانفرنس میں ڈیسڈیمونا یا ‘ڈیسی’ نامی روبوٹ سے ملاقات کی جو خود کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرنے والی انسان نما روبوٹ کہتی اور بھلائی کو اپنا مقصد بتاتی ہیں۔
اس روبوٹ کا کہنا تھا کہ وہ ڈیپ فیک کی نشاندہی اور اسے روکنے کا اہم کام انجام دے سکتی ہیں لیکن انسانوں کو بھی چاہیے کہ وہ چوکس رہیں اور کوئی معلومات دوسروں تک پھیلانے سے پہلے اس سے متعلق حقائق کی چھان بین کر لیں۔
اگرچہ ڈیپ فیک خوف زدہ کر دینے والی چیز ہے لیکن خوف کو خود پر غالب نہ آنے دیں۔ اس کے بجائے ایسے آلات کی تیاری اور ان سے کام لینے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو ڈیپ فیک کی نشاندہی کریں اور ان کا مقابلہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو معلومات کی تصدیق کرنے کی اہمیت کے بارے میں بھی تعلیم دینا ہو گی۔
مصنوعی ذہانت کے مخصوص نظام ایسے جدید الگورتھم سے آراستہ ہیں جو ڈیپ فیک کی نشاندہی کر سکتے ہیں اور گمراہ کن اطلاعات کے خلاف جنگ میں ان کی خاص اہمیت ہے۔
باضابطہ مصنوعی ذہانت
کانفرنس میں ٹیکنالوجی کی صنعت، اختراع کاروں، حکومتوں، ماہرین علم اور دیگر نے ایسا فریم ورک تشکیل دینے پر بات چیت کی جس کے تحت اخلاقیات، انسانی حقوق اور قانون کو اس ٹیکنالوجی کی بنیاد بنایا جا سکے۔
مصنوعی ذہانت کی خوبیوں اور خامیوں پر بحث کرنے والے بہت سے لوگوں نے اتفاق کیا کہ اس ٹیکنالوجی کے غیرمعمولی امکانات کو ان لوگوں کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا جا سکتا جو اس سے طاقت یا منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تمام لوگوں کو ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی دینے کے لیے ضابطہ کاری کی ضرورت ہو گی۔
اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) میں شعبہ سماجی و انسانی سائنس کی ڈائریکٹر جنرل گیبریلا راموس کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو باضابطہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد لیے حکومتوں کی صلاحیتوں میں بہتری لانے، ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لیے لوگوں کی صلاحیتیں بڑھانے اور اسے رو بہ عمل لانے کے لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح یہ ٹیکنالوجی سبھی کو مساوی فائدہ پہنچائے گی اور معاشرے میں عدم مساوات پھیلانے کا باعث نہیں بنے گی۔
وسیع تر نمائندگی
اس کانفرنس کا انعقاد اقوام متحدہ کی بین الاقوامی مواصلاتی یونین (آئی ٹی یو) نے کیا تھا جو اطلاعات اور مواصلات کے حوالے سے اقوام متحدہ کا خصوصی ادارہ ہے۔ اس کانفرنس کے انعقاد میں اسے 40 دیگر اداروں اور سوئزرلینڈ کی حکومت کا تعاون بھی حاصل رہا۔
جنیوا میں ‘آئی ٹی یو’ کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والی اس کانفرنس میں 145 ممالک سے تعلق رکھنے والے مندوبین نے شرکت کی۔ اس کے ساتھ 25 ہزار سے زیادہ لوگوں پر مشتمل متحرک آن لائن کمیونٹی نے بھی کانفرنس کے 80 سے زیادہ اجلاسوں، تقاریر، گروہی مباحثوں اور ورکشاپس میں حصہ لیا۔
اس کانفرنس کو صحت، موسمیات، صنف، مشمولہ خوشحالی، پائیدار ڈھانچے اور دیگر عالمی ترقیاتی ترجیحات کو آگے بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے فروغ سے متعلق اقوام متحدہ کا اہم ترین پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔