اگرچہ دنیا بھر میں خواتین کی انٹرنیٹ تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے لیکن کم آمدنی والے ممالک میں صرف 20 فیصد خواتین کو ہی انٹرنیٹ میسر ہے۔ صنفی ڈیجیٹل تقسیم سے معلومات کا خلا پیدا ہوتا ہے جسے مصنوعی ذہانت میں صنفی تعصب کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے تناظر میں صنفی مساوات میں فرق کو قائم رکھنے، پھیلانے یا کم کرنے میں اس بات کا اہم کردار ادا ہوتا ہے کہ یہ ذہانت کون تخلیق کرتا ہے اور اسے دی جانے والی معلومات میں کون سے تعصبات شامل ہیں (یا نہیں ہیں)۔
مصنوعی ذہانت کا صنفی تعصب کیا ہے؟
برکلے ہیس مرکز برائے مساوات، صنف و قیادت کے ایک جائزے میں مختلف صنعتوں میں مصنوعی ذہانت کے 133 سسٹم کے تجزیے میں 44 فیصد نے صنفی تعصب کا اظہار کیا جبکہ 25 فیصد صنفی و نسلی دونوں طرح کے تعصب کے عکاس تھے۔
ترکی سے تعلق رکھنے والی مصورہ بیزا ڈوش کو ایک کتاب کے لیے تحقیق کے دوران اس وقت صنفی تعصب کا سامنا ہوا جب انہوں نے تخلیقی مصنوعی ذہانت (جینریٹو اے آئی) کو ایک ڈاکٹر اور نرس کے بارے میں کہانی لکھنے کی ہدایت دی۔ یاد رہے کہ صارف کے سوالات یا اشاروں کے جواب میں مصنوعی ذہانت اسی انداز میں نیا مواد (متن، تصاویر، ویڈیو وغیرہ) تخلیق کرتی ہے جس کی اسے تربیت دی گئی ہو۔
بیزا بتاتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت نے ڈاکٹر کو مرد اور نرس کو خاتون بتایا۔ انہوں نے اسے مزید اشارے یا سوالات دینا جاری رکھے جبکہ مصنوعی ذہانت صنفی اعتبار سے دقیانوسی کرداروں کا انتخاب کرتی رہی اور اس نے کچھ مخصوص خوبیوں اور مہارتوں کو مردوں یا خواتین کرداروں کے ساتھ منسلک کر دیا۔ جب انہوں نے مصنوعی ذہانت سے اس صنفی تعصب کے بارے میں پوچھا تو اس نے وضاحت کی کہ یہ سب کچھ ان معلومات کی وجہ سے ہے جن پر اسے تربیت دی گئی تھی۔ اس کا بتایا لفظ ‘جمانا’ خاص طور پر اہم ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سے کچھ الفاظ کو مشین لرننگ میں اِنکوڈ کیا جاتا ہے تاکہ ان کے مفہوم اور دوسرے الفاظ کے ساتھ وابستگی کو ظاہر کیا جا سکے۔ اس طرح مشینیں انسانی زبان کے ساتھ سیکھتی اور کام کرتی ہیں۔ اگر مصنوعی ذہانت کو ایسے ڈیٹا پر تربیت دی جاتی ہے جو خواتین اور مردوں کو مختلف اور مخصوص مہارتوں یا دلچسپیوں سے منسلک کرتا ہے، تو یہ صنعی تعصب کی عکاسی کرنے والا مواد ہی تیار کرے گا۔
ڈوش نے یو این ویمن کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ مصنوعی ذہانت ان تعصبات کی آئینہ دار ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور جن کا اظہار مصنوعی ذہانت کے حوالے سے تربیتی معلومات میں ہوتا ہے۔
سولا محفوظ، امریکہ کہ ٹفٹس یونیورسٹی میں کوانٹم کمپیوٹنگ کی محقق ہیں۔ جہاں وہ مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بابت بہت پرجوش ہیں وہیں انہیں اس حوالے سے چند خدشات بھی لاحق ہیں۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ آیا یہ ٹیکنالوجی مساوات پر مبنی ہے؟ یہ ہمارے معاشرے کے پدر شاہانہ ڈھانچے اور اس کے مرد تخلیق کاروں کے موروثی تعصبات کی کس قدر آئینہ دار ہے؟
محفوظ کی پیدائش افغانستان میں ہوئی تھی۔ جب طالبان نے ان کے گھر آکر ان کے خاندان کو دھمکیاں دیں تو انہیں مجبوراً سکول چھوڑنا پڑا۔ بالآخر وہ افغانستان سے فرار ہو گئیں اور کالج میں داخلہ لینے کے لیے 2016 میں امریکہ ہجرت کر گئیں۔
چونکہ ٹیکنالوجی کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے نظام کو مزید معلومات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں اس لیےEpoch کے محققین کا دعویٰ ہے کہ 2026 تک ان کمپنیوں کے پاس اعلیٰ معیار کا ڈیٹا ختم ہو سکتا ہے۔
نتاچا سنگوا روانڈا سے تعلق رکھنے والی طالبہ ہیں جنہوں نے گزشتہ سال ‘افریقی لڑکیاں کوڈ کر سکتی ہیں’ نامی اقدام کے تحت منعقد کیے گئے پہلے کوڈنگ کیمپ میں حصہ لیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، انہوں نے دیکھا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی زیادہ تر مردوں کے ذریعے تیار کی جاتی ہے اور اسے بنیادی طور پر مردوں پر مبنی ڈیٹا سیٹس پر تربیت دی جاتی ہے۔ سنگوا نے براہ راست مشاہدہ کیا کہ اس سے ٹیکنالوجی کے بارے میں خواتین کا تجربہ کیسے متاثر ہوتا ہے۔ جب خواتین بیماریوں کی تشخیص کے لیے مصنوعی ذہانت کے نظام استعمال کرتی ہیں تو انہیں اکثر غلط جوابات ملتے ہیں، کیونکہ مصنوعی ذہانت ان طبی علامات سے آگاہ نہیں ہوتی جو خواتین میں مختلف طریقے سے ظاہر ہو سکتی ہیں۔
اگر موجودہ رجحانات جاری رہتے ہیں تومصنوعی ذہانت سے چلنے والی ٹیکنالوجی اور خدمات میں متنوع صنفی اور نسلی نقطہ نظر کی کمی برقرار رہے گی۔ اس فرق کے نتیجے میں خدمات کا معیار کم ہوگا اور ملازمتوں، کریڈٹ، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات کے بارے میں جانبدارانہ فیصلے ہوتے رہیں گے۔
مصنوعی ذہانت میں صنفی تعصب کو کیسے روکا جائے؟
مصنوعی ذہانت میں صنفی تعصب کو دور کرنے کا آغاز صنفی مساوات کو بطور مقصد ترجیح دینے سے شروع ہوتا ہے، کیونکہ مصنوعی ذہانت کے نظام تصوراتی ہوتے ہیں اور بنائے جاتے ہیں۔ اس میں غلط بیانی پر مبنی معلومات کا اندازہ لگانا، متنوع صنفی اور نسلی تجربات کی حامل معلومات فراہم کرنا اور مصنوعی ذہانت تیار کرنے والی ٹیموں کو مزید متنوع اور جامع بنانے کے لیے ان کی تشکیل نو شامل ہے۔
دنیا میں صنفی عدم مساوات کے حوالے سے 2023 کی رپورٹ کے مطابق فی الوقت مصنوعی ذہانت کے شعبے میں خواتین کی تعداد صرف 30 فیصد ہے۔
بیزا ڈوش کہتی ہیں کہ جب ٹیکنالوجی صرف ایک نقطہ نظر کے ساتھ تیار کی جائے تو یہ دنیا کو ایک آنکھ سے دیکھنے کے مترادف ہو گا۔ محفوظ اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ فی الوقت وہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والا ایک پلیٹ فارم بنانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہیں جو افغان خواتین کو ایک دوسرے سے جوڑے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں مزید خواتین محققین کی ضرورت ہے۔ خواتین کے زندگی گزارنے کے منفرد تجربات ٹیکنالوجی کی نظریاتی بنیادوں کو گہرائی سے تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس سے ٹیکنالوجی کی نئی ایپلیکیشنز شروع کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
ڈوش سمجھتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت میں صنفی تعصب کو روکنے کے لیے پہلے ہمیں پہلے اپنے معاشرے میں صنفی تعصب کو دور کرنا ہو گا۔
مصنوعی ذہانت کو تیار کرتے وقت مہارت کے متنوع شعبوں پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے جن میں صنفی مہارت بھی شامل ہے تاکہ مشین لرننگ سسٹم ہماری بہتر خدمت کر سکے اور دنیا کو مزید مساوی اور پائیدار بنانے میں مدد فراہم کر سکے۔
مصنوعی ذہانت کی تیزی سے ترقی کرتی صنعت میں، صنفی تناظر، ڈیٹا، اور فیصلہ سازی کی کمی آنے والے سالوں تک گہری عدم مساوات کو برقرار رکھ سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے شعبے میں مزید خواتین کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ‘سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی’ (سٹیم) اور آئی سی ٹی کی تعلیم اور کیریئر میں لڑکیوں اور خواتین کی رسائی اور قیادت کو فعال کرنا اور بڑھانا ہو گا۔
ورلڈ اکنامک فورم نے گزشتہ برس بتایا تھا کہ سٹیم شعبوں میں پیشہ ور خواتین کا تناسب صرف 29 فیصد ہے۔ اگرچہ آج پہلے سے کہیں زیادہ خواتین گریجوایشن کر رہی ہیں اور سٹیم ملازمتیں بھی اختیار کر رہی ہیں لیکن ایسی بیشتر نوکریاں نچلی سطح کی ہیں اور قائدانہ عہدوں پر خواتین خال خال ہی دکھائی دیتی ہیں۔
صنفی مساوات کے حصول میں مصنوعی ذہانت کا ممکنہ کردار؟
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر بین الاقوامی تعاون میں تکنیکی و بنیادی ڈھانچے کے مسائل اور ڈیجیٹل معیشت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے لیکن اس میں یہ بات اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے کہ تکنیکی ترقی کس طرح معاشرے کو متاثر کر رہی ہے اور اس کی تمام پرتوں میں خلل پیدا کر رہی ہے جس میں انتہائی کمزور اور تاریخی طور پر سماج سے خارج کردہ لوگوں کا معاملہ اور بھی گمبھیر ہے۔ مصنوعی ذہانت کے مسائل اور خطرات سے نمٹنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے متعلق اس کی صلاحیت کو بروئے کار لانے میں تاحال ناکامی کا سبب یہ ہے کہ عالمی سطح پر اس کے انتظام کی بابت کچھ نہیں کیا گیا۔
ڈیجیٹل صنفی مساوات کے حوالے سے تعاون کے بارے میں یو این ویمن کی مشیر ہیلین مولینیئر کا کہنا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی طریقہ کار نہیں ہے جو ڈویلپرز کو مصنوعی ذہانت کے ایسے نظام تیار کرنے سے روک سکے جو تیار اور محفوظ نہ ہوں۔ اس وقت ایک بین الاقوامی کثیرفریقی انتظامی نمونے کی ضرورت ہے جو ایسے وقت مصنوعی ذہانت کے نظام کو روکنے اور اس اس سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو جب وہ صنفی یا نسلی تعصب کا مظاہرہ کرے، نقصان دہ دقیانوسی تصورات کو تقویت دے یا رازداری اور سلامتی کے معیارات پر پورا نہ اترتا ہو۔
مصنوعی ذہانت کی موجودہ ساخت میں اس کے فوائد اور خطرات مساوی طور پر تقسیم نہیں کیے جاتے اور طاقت چند کاروباری اداروں، ریاستوں اور افراد کے ہاتھوں میں مرکوز ہوتی ہے جو صلاحیت، معلومات اور کمپیوٹر کے وسائل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے پیدا ہونے والی سماجی کمزوری کی نئی شکلوں، صنعتوں اور محنت کی منڈیوں کو ہونے والے نقصان، نئی ٹیکنالوجی کو جبر کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے رجحان، مصنوعی ذہانت کی سپلائی چین کی پائیداری یا آنے والی نسلوں پر مصنوعی ذہانت کے اثرات جیسے وسیع تر مسائل کو دیکھنے کا بھی کوئی طریق کار موجود نہیں ہے۔
2024 میں، گلوبل ڈیجیٹل کمپیکٹ (جی ڈی سی) پر ہونے والی گفت و شنید ایک نئے ڈیجیٹل گورننس فریم ورک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر سیاسی فیصلوں کی رفتار تیز کرنے اور صنفی نقطہ نظر کو جگہ دینے کا منفرد موقع فراہم کرتی ہے۔ اس کے بغیر مصنوعی ذہانت کے ذریعے موجودہ صنفی تفریق میں مزید اضافے کا خطرہ ہے جس سے صنفی بنیاد پر امتیاز اور نقصان کی موجودہ صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ مصنوعی ذہانت کے نظام الٹا اسے بڑھائیں گے اور قائم رکھیں گے۔
جی ڈی سی پر یو این ویمن پوزیشن پیپر خواتین اور لڑکیوں کو ان کے تمام تر تنوع میں بااختیار بنانے کے لیے ڈیجیٹل تبدیلی کی رفتار، وسعت اور گنجائش کو پوری طرح بروئے کار لانے اور ایسی تبدیلیاں شروع کرنے کے لیے ٹھوس سفارشات فراہم کرتا ہے جو ممالک کو سب کے لیے مساوی ڈیجیٹل مستقبل کی راہ پر گامزن کرتی ہیں۔