غزہ: امدادی اداروں کے خدشات گھنٹوں میں حقیقت بننے کا خطرہ

غزہ: امدادی اداروں کے خدشات گھنٹوں میں حقیقت بننے کا خطرہ

Featured

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نےخبردار کیا ہے کہ غزہ میں ضروری خدمات چند گھنٹوں میں بند ہونے کو ہیں اور اگر ایندھن کی فراہمی بحال نہ ہوئی تو لوگ پینے کے پانی سے محروم ہو جائیں گے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کی ترجمان اولگا چیریکوو نے بتایا ہے کہ ایندھن کی عدم موجودگی میں ہنگامی طبی امداد فراہم کرنے کی 80 فیصد سہولیات دستیاب نہیں رہیں گی۔ شمالی غزہ میں پناہ گزینوں کو پانی فراہم کرنے کا پلانٹ ایندھن کی عدم موجودگی کے باعث کام چھوڑ گیا ہے۔

غزہ میں شدید بھوک سے متاثرہ لوگوں کے لیے خوراک کا حصول بہت مشکل ہو گیا ہے۔ گنجان پناہ گاہوں میں رہن سہن کے حالات انتہائی خوفناک ہیں جہاں مناسب پناہ، صحت و صفائی کی سہولیات اور دیگر مدد دستیاب نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ اگر غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی بحال نہ ہوئی تو آئندہ چند گھنٹوں میں ہی حالات تباہ کن صورت اختیار کر جائیں گے۔

بھوکوں کی ہلاکتیں

غزہ کے طبی حکام نے بتایا ہے کہ وسطی علاقے میں امداد کی تقسیم کے ایک مرکز پر فائرنگ اور افراتفری کے واقعات میں مزید 15 لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کے حوالے سے جاری ہونے والی ویڈیو میں امدادی مرکز کے قریب زمین پر لاشیں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ ہلاکتیں توپخانے کی گولہ باری سے ہوئیں۔

اولگا چیریکوو نے کہا ہے کہ چند روز قبل ایک خاتون نے انہیں بتایا کہ وہ اپنی نو ماہ کی حاملہ دوست کے ساتھ امدادی خوراک لینے کے لیے نکلیں لیکن خوف کے مارے امدادی مرکز تک نہ پہنچ سکیں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ وہاں انہیں فائرنگ کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پناہ اور خوراک کی تلاش

ترجمان نے بتایا ہے کہ شمالی غزہ سے بڑی تعداد میں لوگ خان یونس میں آ رہے ہیں جبکہ خوراک کے حصول کی امید میں جنوبی اور وسطی علاقوں سے شمال کی جانب نقل مکانی بھی جاری ہے۔

غزہ میں آنے والی امداد کی مقدار بہت محدود ہے۔ جنگ سے پہلے روزانہ 600 ٹرک امدادی اور تجارتی سامان لے کر علاقے میں آتے تھے جبک اب یہ تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ اوچا نے بتایا ہے کہ بھوک اور قحط کا بڑھتا ہوا خطرہ نہایت واضح ہے۔ اندازے کے مطابق، خوراک کی شدید قلت کے باعث 55 ہزار حاملہ خواتین کے حمل ضائع ہو جانے اور ان کے ہاں مردہ اور کم وزن بچے پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

680,000 افراد بے گھر

اولگا چیریکوو کا کہنا ہے کہ امداد کی قلت کے باعث لوگ خوراک حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگا رہے ہیں اور فائرنگ سے بچ جانے والوں کو بھوک سے مرنے کا خدشہ ہے۔

20 ماہ سے جاری جنگ میں غزہ کا 82 فیصد علاقہ اسرائیل کے حملوں کی زد میں ہے یا وہاں سے لوگوں کو انخلا کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

اوچا نے کہا ہے کہ 18 مارچ کو جنگ بندی ختم ہونے کے بعد 680,000 سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس کوئی محفوط ٹھکانہ نہیں اور بیشتر کو جو جگہ ملے وہیں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جن میں بے گھر لوگوں کی گنجان پناہ گاہیں، عارضی خیمے، تباہ شدہ عمارتیں، سڑکیں اور کھلی جگہیں شامل ہیں۔