اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بھوک کا بدترین بحران پھیل چکا ہے جہاں پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچارہے اور اسے امداد فراہم کرنے کی کوششوں کو اسرائیلی حکام کی جانب سے شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ غزہ دنیا میں ‘بھوکا ترین علاقہ’ بن گیا ہے۔ امدادی کارروائیوں کو جس قدر مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے اس کی نہ صرف دنیا بلکہ حالیہ تاریخ میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے بتایا ہے کہ گزشتہ دنوں کیریم شالوم کی سرحد کھولے جانے پر امدادی سامان کے 900 ٹرک غزہ میں بھیجنے کی اجازت ملی تھی جن میں 600 سے بھی کم علاقے میں پہنچ سکے ہیں۔ جن ٹرکوں سے سامان اتار کر لوگوں میں تقسیم کے لیے بھیجا گیا ہے ان کی تعداد اور بھی کم ہے۔ اسرائیلی حکام نے جن راستوں پر امداد لے جانے کی اجازت دی ہے وہ غیرمحفوظ ہیں جبکہ امدادی کارروائیوں کی منظوری بھی تاخیر سے ملتی ہے۔
بھوک، مایوسی اور لوٹ مار
جینز لائرکے نے کہا ہے کہ امداد کی جتنی مقدار غزہ میں پہنچ رہی ہے وہ لوگوں کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔ بھوکے اور مایوس لوگ امدادی ٹرکوں کو راستے میں ہی روک کر امدادی سامان اتار لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ امداد انہی لوگوں کے لیے لائی جاتی ہے لیکن اسے تمام لوگوں کی ضروریات مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کے تحت تقسیم ہونا چاہیے۔
بدھ کو بھوکے ہجوم نے دیرالبلح میں عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے امدادی گودام سے آٹا لوٹ لیا تھا۔ اس دوران دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
غزہ کی سرحد پر امداد کے ڈھیر
ترجمان نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ اور امدادی شراکت داروں کی جانب سے فراہم کردہ امداد کے ہزاروں صندوق غزہ کی سرحد پر پڑے ہیں جنہیں اجازت ملنے پر مختصر وقت میں غزہ کے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہ امداد عالمی عطیہ دہندگان نے مہیا کی ہے جو اسے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کیے جانے کی توقع رکھتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے نجی ادارے ‘غزہ امدادی فاؤنڈیشن’ کے زیراہتمام امداد کی فراہمی بھی شروع ہو گئی ہے جس میں اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں۔ منگل کو اس ادارے کی جانب سے امداد کی تقسیم کے موقع پر ہنگامہ آرائی میں 47 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
‘متبادل’ امدادی طریقہ ناکام
مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ‘اوچا’ کے سربراہ جوناتھن ویٹل نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے اس منصوبے میں دانستہ بہت قلیل مقدار میں امداد تقسیم کی جا رہی ہے۔ لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے وسطی و جنوبی غزہ میں چار مراکز قائم کیے ہیں جن کی حفاظت امریکہ کے نجی سکیورٹی ادارے کرتے ہیں۔ جو فلسطینی ان مراکز تک پہنچ جاتے ہیں انہیں خوراک مل جاتی ہے اور دیگر محروم رہتے ہیں۔
جینز لائرکے نے کہا ہے کہ امداد کی تقسیم کا یہ ‘متبادل طریقہ’ ناکام ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں، اس میں امداد کی فراہمی کے حوالے سے غیرجانبداری کے اصول کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے جس کے تحت سبھی کو بلاتفریق مدد پہنچائی جانی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے ابتری اور انتہائی خطرناک حالات نے جنم لیا ہے۔ اگر کوئی شخص امدادی مرکز سے مدد لینے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اسے باہر نکلتے ہی لوٹ لیا جاتا ہے۔
انہوں نے امدادی برادری کے مطالبے کو دہراتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے تمام راستے کھول کر لوگوں کو بڑے پیمانے پر مدد پہنچانے کی اجازت دے تاکہ ضرورت مند اپنے ٹھکانوں پر خوراک اور دیگر اشیا حاصل کر سکیں۔
ترجمان نے بتایا ہے کہ اس وقت غزہ کے 80 فیصد سے زیادہ علاقے میں اسرائیل کی عسکری کارروائیاں جاری ہیں اور 18 مارچ کو جنگ بندی ختم ہونے کے بعد تقریباً 635,000 لوگوں کو دوبارہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔