غزہ: امداد کی ترسیل پر جاری اسرائیلی پابندیوں کے مہلک تنائج کا خطرہ

غزہ: امداد کی ترسیل پر جاری اسرائیلی پابندیوں کے مہلک تنائج کا خطرہ

Featured

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر اسرائیل کی پابندی اور بمباری کے نتیجے میں تکالیف بڑھ رہی ہیں جبکہ انخلا کے احکامات نے ہزاروں لوگوں کو دربدر کر دیا ہے جن کے پاس کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ میں انسانی زندگی سے سنگین لاپروائی برتی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے کڑے محاصرے کو اب دو ماہ ہو چکے ہیں۔ عالمی رہنماؤں کو چاہیےکہ وہ علاقے میں بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں کا احترام یقینی بنانے کے لیے مضبوط، فوری اور فیصلہ کن قدم اٹھائیں۔

امدادی اداروں نے کہا ہے کہ شہریوں کی زندگی کو تحفظ ملنا چاہیے، انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت دی جانی چاہیے، تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے اور جنگ بندی کی تجدید عمل میں آنی چاہیے۔

محاصرہ، بھوک اور بمباری

اقوام متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ غزہ کی 21 لاکھ آبادی علاقے میں پھنس چکی ہے جس پر بم برسائے جا رہے ہیں اور انہیں بھوکا مارا جا رہا ہے۔ ایسے مفروضے قطعی غلط ہیں کہ علاقے میں ہر فرد کی ضرورت کے مطابق خوراک موجود ہے۔

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا تھا کہ غزہ میں بچوں کو غذائی قلت کا علاج مہیا کرنے والے 12 مراکز بند ہو گئے ہیں جبکہ امداد کی عدم فراہمی کے نتیجے میں 10 لاکھ بچوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو گی۔

ادارے کے ترجمان ابو خلف نے امداد کی ترسیل روکے جانے کے اسرائیلی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ بڑی مقدار میں امدادی سامان غزہ کی سرحد سے باہر پڑا ہے۔

بچوں کے دودھ کی قلت

مزید برآں، اس وقت غزہ میں صرف 400 بچوں کے لیے ایک ماہ کی ضرورت کا فارمولا دودھ ہی دستیاب ہے۔ اندازوں کے مطابق چھ ماہ سے کم عمر کے تقریباً 10 ہزار بچوں کو اضافی دودھ کی ضرورت ہے۔   

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے تمام امدادی و تجارتی اشیا کی غزہ میں آمد پر پابندی کا فیصلہ شہریوں کے لیے سنگین اثرات کا حامل ہو گا۔

غزہ کے طبی حکام کے مطابق، اتوار کو اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں ایک درجن سے زیادہ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کی فوج نے مبینہ طور پر رفح میں تمام گھر تباہ کر دیے ہیں اور علاقے کا غزہ کے باقی حصوں سے رابطہ ختم کر دیا ہے۔

بڑھتا غذائی بحران

عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ ضروری سامان کی شدید قلت کے باعث اس نے غزہ میں سستی روٹی فراہم کرنے والے اپنے 25 تنور بند کر دیے ہیں۔ علاقے میں اشیائے ضرورت کی قلت ہونے لگی ہے اور باقیماندہ چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں کیونکہ غذائی مدد یا کھانا بنانے کے لیے استعمال ہونے والی گیس غزہ نہیں پہنچ رہی۔

شمالی غزہ میں پناہ گزینوں کی خیمہ بستی میں رہنے والی جلیلہ ابو لیلیٰ بتاتی ہیں کہ بیچارے بچے دن بھر کھانے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں ملتا۔ کبھی کبھار بعض لوگ انہیں کچھ چاول دے دیتے ہیں اور انہیں اسی پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ غزہ میں خوراک نہیں پہنچ رہی اس لیے غذائی بحران بھی بڑھتا جا رہا ہے۔