
© ILO/Marcel Crozet بنگلہ دیش کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی خواتین۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا ہے کہ جدید طرز کے سستے ملبوسات کی تیزرفتار اور بڑے پیمانے پر تیاری سے ماحولیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہر سیکنڈ میں ایسے متروک ملبوسات سے بھرا ایک ٹرک یا تو جلا دیا جاتا ہے یا کوڑے کا حصہ بن جاتا ہے۔
کچرے یا فضلے کے خاتمے سے متعلق عالمی دن پر اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ زمین پر ٹیکسٹائل کی صنعت کے نقصان دہ اثرات پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ فیشن انڈسٹری کا شمار سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے شعبوں میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں آٹھ فیصد گرین ہاؤس گیسیں اسی صنعت سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ہر سال 215 ٹریلین لٹر پانی خرچ کرتی ہے جو اولمپک کھیلوں میں تیراکی کے 86 ملین تالابوں کے پانی کے برابر ہے۔ علاوہ ازیں اس صنعت میں ہزاروں اقسام کے کیمیائی مادے استعمال ہوتے ہیں جن میں بیشتر انسانی صحت اور ماحولیاتی نظام کے لیے خطرناک ہیں۔
ان تمام مسائل کے باوجود، غیرمعمولی شرح سے ملبوسات تیار اور ضائع ہو رہے ہیں جس کا سب ایسے کاروباری طریقے ہیں جن میں پائیداری کے بجائے رفتار اور تلفی کو ترجیح دی جاتی ہے۔
کپڑوں میں بُنا ماحولیاتی بحران
سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا ہے کہ جدید ملبوسات کی صنعت میں ضیاع کا بحران بہت بڑے عالمگیر مسئلے کی محض ایک علامت ہے۔
دنیا بھر میں لوگ ہر سال دو ارب ٹن کوڑا یا فضلہ پیدا کرتے ہیں جسے عام سائز کے کنٹینروں میں بھرا جائے تو زمین کے گرد ان کی 25 تہیں لگ سکتی ہیں۔ یہ فضلہ زمین، فضا اور پانی کو آلودہ کر رہا ہے اور اس سے غریب ترین آبادیاں غیرمتناسب طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امیر ممالک جنوبی دنیا کو متروک کمپیوٹر سے لے کر ایک مرتبہ استعمال ہونے والے پلاسٹک تک بھاری مقدار میں کئی طرح کا کچرا بھیج رہے ہیں۔ ایسا سامان وصول کرنے والے بیشتر ممالک کے پاس اس کوڑے کی معمولی مقدار کو تلف کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے جس کے نتیجے میں آلودگی بڑھ رہی ہے اور کچرا اٹھانے والوں کے لیے خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
آلودگی کے اخراج کا بڑا ذریعہ
کچرے یا فضلے کے خاتمے کے اس عالمی دن پر فیشن کی صنعت خاص توجہ کا مرکز ہے جو بھاری مقدار میں وسائل استعمال کرتی اور اتنی ہی بڑی مقدار میں آلودگی خارج کرتی ہے۔ اس صنعت میں رجحانات تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں اور بہت سے ملبوسات چند مرتبہ پہننے کے بعد ہی پھینک دیے جاتے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ملبوسات کے استعمال کا دورانیہ بڑھا کر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 44 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
تاہم یہ صنعت زندگیوں اور روزگار میں بہتری لانے کے نمایاں مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ملبوسات کے شعبے میں دوبارہ قابل استعمال بنائی جانے والی اشیا کو لے کر نت نئے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ صارفین لباس کے حوالے سے پائیداری کا مطالبہ کرنے لگے ہیں اور بہت سے ممالک میں استعمال شدہ کپڑوں کی مارکیٹ ترقی پا رہی ہے۔ موجودہ حالات میں سبھی کو چاہیے کہ وہ کچرے اور فضلے کے خلاف جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔
بناوٹی اقدامات سے گریز
انتونیو گوتیرش نے کہا کہ حکومتوں کو ایسی پالیسیاں اور ضوابط نافذ کرنا ہوں گے جن سے پائیداری اور فضلے کا خاتمہ کرنے کے اقدامات کو فروغ ملے۔ کاروباروں کو بناوٹی اقدامات ترک کر کے کچرے یا فضلے میں کمی لانے اور تجارتی ترسیل کے نظام میں وسائل کا باکفایت استعمال یقینی بنانے کے لیے حقیقی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
صارفین اس ضمن میں ماحولیاتی اعتبار سے ذمہ دارانہ فیصلے کر کے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس میں پائیدار مصنوعات کو ترجیح دینا، زائد از ضرورت صرف سے گریز کرنا اور استعمال شدہ ملبوسات کی منڈی سے رجوع کرنا خاص طور پر اہم ہیں۔
عالمگیر اشتراک عمل
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ فیشن کی صنعت کے علاوہ کچرے یا فضلے کے خلاف وسیع تر جدوجہد عالمگیر اشتراک عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ دنیا کی ایک ارب سے زیادہ آبادی کچی بستیوں یا غیررسمی آبادیوں میں رہتی ہے جہاں کوڑا کرکٹ کو تلف کرنے کا مناسب انتظام نہیں ہوتا اور اس طرح صحت کو لاحق خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ کوڑے یا فضلے کو بے ضابطہ طور سے ٹھکانے لگانے اور اس ضمن میں ناقص طریقہ ہائے کار کے باعث آلودگی اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے تقریب کے شرکا سے کہا کہ وہ ماحول کو صاف رکھنے اور تمام انسانوں کی خاطر صحت مند اور مزید مستحکم مستقبل تعمیر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عہد کریں۔