
© UNICEF/Eyad El Baba غزہ میں ایک حالیہ اسرائیلی حملے کے بعد تباہی کا منظر۔
غزہ پر اسرائیل کی حالیہ بمباری میں اقوام متحدہ کے اہلکاروں سمیت سیکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد ادارے نے علاقے میں اپنی موجودگی کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے بتایا ہے کہ اگرچہ غزہ میں امدادی ضروریات بڑھ رہی ہیں اور شہریوں کے تحفظ سے متعلق خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، تاہم موجودہ حالات میں سیکرٹری جنرل کو عملے کے تحفظ کی خاطر یہ مشکل فیصلہ لینا پڑا۔
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ شہریوں کو ان کی بقا کے لیے درکار ضروری امداد کی فراہمی کے لیے بدستور پرعزم ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر تین ہفتوں سے پابندی عائد ہے اور یہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد ایسا طویل ترین عرصہ ہے۔ اس دوران اسرائیل کی فوج نے علاقے میں تباہ کن حملے کیے ہیں جن میں سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اس نے عندیہ دیا ہے کہ غزہ میں عسکری کارروائیاں جاری رہیں گی۔
بین الاقوامی قانون کی پاسداری
اب تک موصولہ اطلاعات کے مطابق، 19 مارچ کو وسطی غزہ کے علاقے دیرالبلح میں اقوام متحدہ کی ایک عمارت پر حملے میں بلغاریہ سے تعلق رکھنے والا اہلکار ہلاک اور عملے کے چھ ارکان شدید زخمی ہو گئے جن کا تعلق فرانس، مولدووا، شمالی میسیڈونیہ، فلسطین اور برطانیہ سے تھا۔ ان میں بعض کو ایسی چوٹیں آئی ہیں جن کے اثرات عمر بھر باقی رہیں گے۔
ترجمان کے مطابق، متحارب فریقین ادارے کی اس عمارت سے آگاہ تھے اور انہیں بارہا کہا گیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی تنصیبات کو حملوں سے تحفظ فراہم کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو شہریوں کی زندگی کو تحفظ دینے والے امدادی اہلکاروں کی اپنی زندگی بھی خطرے میں ہو گی۔
آزادانہ تحقیقات
سیکرٹری جنرل نے ان حملوں کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اس واقعے کی مکمل، مفصل اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام فریقین ہر وقت بین الاقوامی قانون کی مکمل تعمیل کریں۔ شہریوں کا احترام ہونا چاہیے اور انہیں تحفظ ملنا چاہیے۔ انسانی امداد کی فراہمی پر پابندی اٹھائی جائے اور یرغمالیوں کو بلاتاخیر اور غیرمشروط طور پر رہا کیا جائے۔
انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس جنگ کو روکنے اور بین الاقوامی قانون کا احترام یقینی بنانے کے لیے فریقین پر سفارتی و معاشی دباؤ ڈالیں اور شہریوں کے خلاف جرائم پر احتساب یقینی بنانےکی کوششیں کریں۔