
امریکی امدادی کٹوتیوں سے مہاجرت پر مجبور بچوں کی دیکھ بھال متاثر
دنیا بھر میں بچے، پناہ گزین اور نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگ امدادی مالی وسائل کے بحران سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جو امریکہ کی جانب سے بیرون ملک دی جانے والی امداد روکے جانے سے شدت اختیار کر گیا ہے۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) اور ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے خبردار کیا ہے کہ امدادی مقاصد کے لیے مالی وسائل کی شدید قلت کے نتیجے میں لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے کا کام خطرے میں ہے۔
اس بحران کے باعث چھوٹے بچوں کی اموات روکنے کی جانب پیش رفت بھی ضائع ہو سکتی ہے جس میں 1990 کے بعد 60 فیصد تک نمایاں کمی آئی ہے۔
نائجیریا سے ویڈیو لنک پر جنیوا میں بات کرتے ہوئے یونیسف کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کٹی وان ڈر ہیڈن نے بتایا ہے کہ ادارے کی کوششوں سے 24 سال کے دوران شدید غذائی قلت کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد میں ایک تہائی کمی آئی ہے اور 55 ملین بچوں کی زندگیاں بچائی گئی ہیں۔ تاہم یہ کام حکومتوں، فلاحی اداروں اور نجی شعبے کے تعاون سے ہی جاری رہ سکتا ہے۔ بچوں اور ماؤں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لیے عطیہ دہندگان کا تعاون بہت ضروری ہے جس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔
بچوں ماؤں کی صحت کو خطرہ
کٹی ہیڈن نے بتایا کہ امدادی وسائل میں آنے والی حالیہ کمی کے باعث بہت سی جگہوں پر ماں اور بچے کی زندگی متاثر ہو گی۔ چونکہ متعدد عطیہ دہندگان نے وسائل کی فراہمی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اس لیے یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر صورت اختیار کر گیا ہے۔ رواں سال 146 ممالک میں تقریباً 213 ملین بچوں کو ضروری انسانی امداد درکار ہو گی اور وسائل کی قلت کے سبب رواں سال نائجیریا اور ایتھوپیا میں تقریباً 13 لاکھ بچے ضروری مدد اور غذائیت تک رسائی کھو سکتے ہیں۔
ایتھوپیا کے دور دراز علاقے عفار میں یونیسف کے زیراہتمام 30 متحرک شفا خانے چلائے جاتے ہیں اور مالی وسائل کی فراہمی بند ہو جانے کے باعث اب ان میں سات ہی فعال رہ گئے ہیں۔
نئے وسائل میسر نہ آئے تو یونیسف کے لیے اس مدد کی فراہمی برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو گا اور اس طرح 70 ہزار بچوں کی زندگی متاثر ہو گی جو ان طبی سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں۔ اسی طرح، نائجیریا میں ادارے کو مئی تک ضروری طبی سازوسامان کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی غیرضروری اموات کو روکنے کے لیے بیماریوں کی بروقت تشخیص، روک تھام اور غذائیت کی فراہمی ضروری ہے۔ محض علاج معالجہ ہی اہم نہیں ہوتا بلکہ مرض کو لاحق ہونے سے پہلے یا ابتدائی مراحل میں روکنا بھی لازم ہے۔ یونیسف اپنے کام سے پیچھے نہیں ہٹے گا تاہم، اس معاملے میں عالمی برادری کو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
پناہ گزین مدد سے محروم
امدادی وسائل کی قلت کے باعث ‘یو این ایچ سی آر’ نے بھی اپنی امدادی کارروائیوں اور پروگراموں میں کمی لانے کا اعلان کیا ہے۔
ادارے کے ترجمان میتھیو سالٹ مارش نے بتایا ہے کہ امریکہ کی جانب سے بیرون ملک امداد روکے جانے کے بعد ‘یو این ایچ سی آر’ نے اپنے ہیڈکوارٹر اور دنیا بھر میں واقع دفاتر کے اخراجات کو کم کیا ہے۔ وسائل کی بچت کے لیے ادارہ اپنے عملے کی تعداد میں بھی کمی لا رہا ہے اور اس حوالے سے جائزے کی کارروائی جاری ہے۔ اس صورتحال میں دنیا بھر کے پناہ گزینوں کی زندگی متاثر ہو گی۔
ادارے نے جنوبی سوڈان، بنگلہ دیش اور یورپ میں پہلے ہی اپنے متعدد امدادی اقدامات روک دیے ہیں اور ترکیہ جیسے ممالک میں اسے اپنے دفاتر کو بند کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح ایتھوپیا میں موت کے خطرات کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے قائم کی جانے والی پناہ گاہ میں کام بھی بند ہو گیا ہے۔
جنوبی سوڈان میں تشدد کے خطرات سے دوچار خواتین اور لڑکیوں کے لیے قائم کردہ 25 فیصد پناہ گاہیں ہی فعال رہ گئی ہیں جبکہ ملک میں 80 ہزار لوگوں کو نفسیاتی، قانونی اور طبی امداد کی فراہمی بند ہو گئی ہے۔