سوشل میڈیا پر وائرل ایک تصویر تحت دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اتر پردیش کے شہر آگرہ کی ایک مسجد میں ہندو لڑکی کو ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی (گینگ ریپ) کا شکار بنانے کے بعد، اسے قتل کر دیا گیا ہے۔ یوزرس اس فوٹو کو شیئر کرکے ہیشٹیگ #मस्जिद_में_बेटीकी_अधनंगी_मौत (مسجدمیں بیٹی کی نیم برہنہ موت) چلا رہے ہیں۔
۔@singh_kikki نامی ایکس ہینڈل نے فوٹو اور ویڈیو شیئر کرنے کے ساتھ لکھا،’اب بتاؤ حلالہ کی پیدائشوں، اس ملک میں غیر محفوظ کون ہے تم یا ہم؟ آگرہ کی مسجد میں ایک ہندو لڑکی کی نیم برہنہ حالت میں لاش برآمد ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجتماعی جنسی زیادتی بھی ہوئی ہے۔ اب کیا ان درندوں سے بچنے کے لیے ہندو لڑکیوں کو بھی برقعہ پہننا پڑے گا؟ #मस्जिद_में_बेटीकी_अधनंगी_मौत‘۔
علاوہ ازیں متعدد یوزرس نے اس تصویر اور ویڈیو شیئر کرتے ہوئے یہی دعویٰ کر رہے ہیں، جنھیں یہاں، یہاں اور یہاں کلک کرکے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
فیکٹ چیک:
DFRAC کی ٹیم نے وائرل خبر کی حقیقت جاننے کے لیے آگرہ پولیس کے ایکس ہنڈل ’@agrapolice‘ کو چیک کیا۔ ہمیں یہاں متذکرہ واردات کے تناظر میں آگرہ پولیس کے کئی پوسٹ ملے۔ انہی میں سے ایک پوسٹ میں پولیس نے بتایا ہے کہ تاج گنج حلقے کے تحت مسجد میں مردہ پائی گئی خاتون، مسلمان ہے۔
پولیس نے اس ٹویٹ میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ تفتیش اور سائنٹیفک شواہد سے متوفیہ خاتون کے ساتھ ریپ کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
پولیس نے عوام سے فیک نیوز اور گمراہ کُن نیوز شیئر نہ کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔
مزید برآں ایک دیگر ایکس پوسٹ میں پولیس نے بتایا ہے کہ- ’19 مئی 2024 کو ہوئی واردات سے متعلق تھانہ تاج گنج میں علیٰ الفور مقدمہ درج کیا گیا۔ تفتیش اور سائنٹیفک شواہد سے متوفیہ خاتون کے ساتھ ریپ کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ واردات کی تفتیش کے لیے 4 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ جلد ہی واردات کی کامیاب تفتیش کی جائے گی‘۔
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ متوفیہ خاتون ہندو نہیں، بلکہ مسلمان ہے اور پولیس کی تفتیش میں ملے سائنٹیفک شواہد میں خاتون کے ساتھ ریپ کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ غلط/Fake ہے۔