سوشل میڈیا پر تملناڈو کی مشہور شخصیت پیریار کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے 70 سال کی عمر میں اپنی ہی بیٹی سے شادی کی تھی، یوزرس انھیں ہوس پرست انسان قرار دے رہے ہیں۔
اکھلیش ترپاٹھی ایڈووکیٹ نامی یوزر نے ٹویٹر پر دعویٰ کیا،’ پیریار نے اپنی ہی بیٹی سے جو اس سے 40 سال چھوٹی تھی، شادی کی تھی، اس وقت پیریار کی عمر 70 سال تھی،، سوچو 70 برس کی عمر میں یہ انسان اتنا ہوسی تھی کہ اپنی بھی بیٹی نہیں چھوڑا،، ایسا انسان آپ کا آدرش (رول ماڈل/آئیڈیل)ہو سکتا ہے ہمارا نہیں،، جاؤ تم بھی پیریار کی بد اعمالیوں کو اپناؤ، کوئی نہیں روکے گا‘۔
دراصل اکھلیش ترپاٹھی نے ایک ٹویٹ کو کوٹ-ری ٹویٹ کیا ہے، جس میں اداکار وجے کی تصویر کے ساتھ ایک بیان لکھا گیا ہے کہ-’طلبہ کو امبیڈکر، پیریار کے بارے میں پڑھنا چاہیے۔ سپر اسٹار وجے، اداکار‘۔
पेरियार ने अपने ही बेटी से जो उससे 40 साल छोटी थी विवाह किया था,उस समय पेरियार की उम्र 70 वर्ष था,,सोचो 70 वर्ष की उम्र में ये इंसान इतना हवसी था की अपनी भी बेटी नहीं छोड़ा,,ऐसा इंसान आपका आदर्श हो सकता है हमारा नहीं,,जाओ तुम भी पेरियार की कुकर्मो को अपनाओ कोई नही रोकेगा,😂😂😂 https://t.co/V7R0sQSrFN
— akhilesh tripathi advo (@highcourtallad) June 22, 2023
Tweet Archive Link
ٹویٹر بائیو کے مطابق، اکھلیش ترپاٹھی الہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل اور ایک وقف سناتنی ہیں۔ اکھلیش ترپاٹھی مندر اور گروکل سَنرکشن ابھیان سے بھی وابستہ ہیں۔
املیش سنگھ نے بھی ٹویٹر پر یہی دعویٰ کیا ہے۔ املیش نے پروفیسر دلیپ منڈل کے ٹویٹ کو کوٹ-ری ٹویٹ کیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا،’Retweet: سماجی انصاف کی مشعل جن ہاتھوں میں محفوظ ہے، جنھوں نے NEET کی آل انڈیا سیٹوں میں OBC ریزرویشن نافذ کروایا، جنھوں نے مندروں میں تمام ذاتوں کے اور خواتین پجاری مقرر کر دیے، جنہوں نے تملناڈو میں EWS لاگو نہیں ہونے دیا، ایسے اسٹالن بہار آ رہے ہیں۔#WelcomeStalin‘۔
पेरियार ने अपने ही बेटी से जो उससे 40 साल छोटी थी विवाह किया था,उस समय पेरियार की उम्र 70 वर्ष थी। सोचो 70 वर्ष की उम्र में ये इंसान इतना हवसी था की अपनी भी बेटी नहीं छोड़ा,ऐसा इंसान तुम्हारा आदर्श हो सकता है हमारा नहीं, जाओ तुम भी पेरियार की कुकर्मों को अपनाओ कोई नही रोकेगा😂😂 https://t.co/4qRjXkpX5R
— Amlesh Singh (@_AmleshSingh) June 22, 2023
Tweet Archive Link
فیکٹ چیک:
وائرل دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے، DFRAC ٹیم نے گوگل پر کچھ کی-ورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں کئی میڈیا رپورٹس ملیں۔
پیریار کا نام ایروڈ وینکٹ نائکر راماسامی ہے۔ وہ ایک سماجی مصلح، دراوڑی تحریک کے محرک اور 20ویں صدی کے تملناڈو کے ممتاز سیاست دان تھے۔
ویب سائٹ نیوز 18 کی جانب سے پبلش رپورٹ کے مطابق پیریار کی پیدائش تمل ناڈو کے ایروڈ میں ایک امیر کاروباری گھرانے میں ہوئی تھی۔ لیکن جلد ہی وہ دہریہ (خدا میں یقین نہ رکھنے والا) ہو گئے۔ 19 سال کی عمر میں، انہوں نے اپنے والد کی رضامندی سے 14 برس کی ناگما سے پہلی شادی کی۔ ناگما کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت ملنسار اور زمین سے وابستہ رہنے والی خاتون تھیں۔ ناگما اور پیریار کی ایک بیٹی بھی ہوئی تھی لیکن وہ پانچ ماہ بعد چل بسی۔ اس کے بعد ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ 1933 میں ناگما کی موت کے بعد، پیریار نے دوبارہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پیریار نے خود کو اپنے کام میں پوری طرح منہمک کر لیا۔
پیریار نے 1919 میں کانگریس کی رکنیت چھوڑ دی اور ایک نئی اور مضبوط پارٹی بنائی جس کا نام دراوڑ کژگم تھا۔ ویب سائٹ فیمنزم اِن انڈیا نے انگریزی میں ایک طویل رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس افتراء اور افواہ کی خبر لی گئی ہے جو پیریار کی ایک کم عمر عورت سے شادی سے متلعق ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ- منیامَّائی جسٹس پارٹی کے رکن کنگاسابائی کی بیٹی تھیں اور عزتِ نفس کی تحریک کے اصولوں پر پختہ یقین رکھنے والی تھیں، منیامَّائی اپنے والد کی موت کے بعد 20 سال کی عمر میں دراوڑ کژگم (پیریار کا قائم کردہ) میں شامل ہوگئیں۔ وہ شادی میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں اور ایسی زندگی گذارنے سے انکاری تھیں جو معاشرے نے عورتوں کے لیے تجویز کر رکھی تھی۔ وہ تنظیم کے تئیں وقف تھیں اور پیریار کی سب سے قابل اعتماد پیروکار بن گئی تھیں۔ (اردو ترجمہ)
وہیں نیوز 18 کی رپورٹ کے مطابق پیریار نے اپنے اخبار وِدوتھلائی میں بیان دیا تھا کہ منیامَّائی گذشتہ پانچ سالوں سے ان کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ وہ دراوڑ کژگم کے نظریات سے بھی سرشار ہیں، لہٰذا میں نے منیامَّائی کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اور ذاتی جائیداد کے حقوق اور دراوڑ کژگم کی چیئرپرسن کی ذمہ داری بھی سونپ دوں۔ وہ ان کی سیاسی اور ذاتی جانشین ہوں گی۔
ویب سائٹ feminismindia.com کے مطابق پیریار، ایک ماہرِ نسواں جنھوں نے خواتین کے املاک کے حقوق کے لیے جدوجہد کی، عفت اور مادریت کی خرافات کو خارج کیا اور خواتین کے لیے 50 فیصد ریزرویشن کی وکالت کی، اچھوت بنے رہیں گے اور ان کی میراث منفرد رہے گی… 21ویں صدی میں پیریار کی شادی کے لیے کسی بھی طرح کے جواز کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پیریار کے شادی کے فیصلے کی وجہ سے دراوِڑ کژگم (ڈی کے) میں دراڑ پڑ گئی۔ انّا دورَئی نے دراوڑ منیتر کژگم (ڈی ایم کے) کے نام سے ایک نئی پارٹی بنائی اور ڈی کے کے قریب قریب تمام اعلیٰ لیڈران اور کیڈر کے لوگ اس میں چلے گئے۔
منیامئی 1974 میں اس وقت سرخیوں میں آئیں جب انہوں نے دہلی میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف احتجاج کیا۔ راون لیلا کے انعقاد کے ساتھ ساتھ رام، لکشمن اور سیتا کے پتلے جلائے۔ ایمرجنسی کی کھل کر مخالفت کی۔
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے فیکٹ-چیک سے یہ واضح ہے کہ پیریار نے ذاتی جائیداد کے حق اور دراوڑ کژگم کے چیئرپرسن کی ذمہ داری کو منتقل کرنے کے لیے اپنی پرسنل سکریٹری اور دراوڑ کژگم کی رکن منیامائی سے شادی کی تھی، نہ کہ اپنی بیٹی سے، اس لیے اکھیلیش ترپاٹھی و دیگر سوشل میڈیا یوزرس کا بیہودہ الزام یا دعویٰ غلط ہے۔