بنگلہ دیش میں سوشل میڈیا یوزرس، کشمیر سے متعلق گمراہ کن دعوے کر رہے ہیں۔ کبھی فلسطین کی فوٹو کو کشمیر کا بتا کر شیئر کر رہے ہیں تو کبھی کشمیر کی تاریخ کے حوالے سے گمراہ کن دعوے کر رہے ہیں۔
ٹویٹر پر تبسم اختر نامی ایک یوزر نے کشمیر سے متعلق ایک دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے بنگالی زبان میں لکھا،’কাশ্মির সমস্যার মূলহোতা ব্রিটিশ ও ভারতীয় হিন্দু রাজা “হরি সিং”,যে কি না কাশ্মিরের রাজা ছিল কিন্তু প্রজারা ছিল সবাই মুসলমান।ব্রিটিশরা ভারত পাকিস্তান ভাগ করলে আইন পাশ করা হয় যে, কাশ্মিরিদের গনভোটে মাধ্যেমে তারা সরকার নির্বাচন করবে। #IslamIsReligionOfPeace‘
گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے جس کا اردو ترجمہ اس طرح ہے،’کشمیر مسئلہ کو پیدا کرنے والے برطانوی اور بھارتی ہندو راجہ ’ہری سنگھ‘ ہیں جو کشمیر کے راجہ نہیں تھے، لیکن عوام سبھی مسلمان تھے۔ جب انگریزوں نے بھارت-پاکستان کی تقسیم کی تو ایک قانون پاس کیا گیا کہ کشمیری ریفرنڈم کے توسط سے حکومت کا انتخاب کریں گے#IslamIsReligionOfPeace‘۔
فیکٹ چیک
تبسم اختر نے دعویٰ کیا کہ بھارت-پاکستان تقسیم کے دوران ایک قانون پاس کیا گیا تھا کہ کشمیری ریفرنڈ کے ذریعے حکومت منتخب کریں گے۔ اس دعوے کا فیکٹ چیک کرنے کے لیے ہم نے گوگول پر کچھ کی-ورڈ کی مدد سے سرچ کیا۔ ہمیں ’آج تک‘ کی جانب سے پبلش ایک رپورٹ ملی۔
اس رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کشمیر کا بھارت یا پاکستان میں انضمام نہ کرکے کشمیر کو ایک الگ ملک کے طور پر قائم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن 24 اکتوبر 1947 کو قبائلیوں کے حملے کے بعد راجہ ہری سنگھ نے بھارت سے مدد طلب کی۔ لیکن تب تک کشمیر کا بھارت میں انضمام نہیں ہوا تھا، اس لیے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے واضح کر دیا کہ بھارتی فوج کی جانب سے کشمیر کو مدد نہیں دی جا سکتی۔
بعد ازاں راجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو کشمیر کا بھارت میں انضمام کے معاہدے (ٹریٹی) دستخط کیا، جس کے بعد بھارتی فوج نے قبائلیوں کو کھدیڑنا شروع کر دیا۔ کشمیر میں ریفرنڈم کا مطالبہ پہلی بار اقوام متحدہ میں 21 اپریل 1948 کو کیا گیا۔
نتیجہ:
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ تقسیم کے وقت کشمیر میں ریفرنڈ کا قانون پاس نہیں کیا گیا تھا، اس لیے تبسم اختر کا دعویٰ غلط ہے۔