سوشل میڈیا سائٹس پر ہندوستان کے مجاہدین آزادی کے بارے میں دلچسپ دعویٰ کیا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کمار شیام نامی یوزر نے ٹویٹ کیا،’پاکستانی حکومت کو دیا جواب یاد ہے؟ جب پاک نے کشمیر دینے کی بات کہی تھی تو مرارجی نے کہا کہ کشمیر دینے میں اعتراض نہیں لیکن اس بار ہندوستان میں رہ رہی پوری مسلم آبادی بھی لے کر جانی ہوگی۔ ’اس بار‘ کا مطلب سمجھتے ہیں آپ؟‘۔
فیکٹ چیک
مجاہد آزادی، ہندوستان کے چوتھے اور پہلے گجراتی وزیر اعظم مرار جی دیسائی کے بارے میں کیے گئے مذکورہ دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے ہم نے کچھ مخصوص کی-ورڈ کی مدد سے انٹرنیٹ پر سرچ کیا۔ ہمیں کہیں بھی مرار جی دیسائی کے حوالے سے ایسا کچھ بھی نہیں ملا، البتہ ہمیں ایک آزاد تھنک ٹینک، آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن (ORF) کی جانب سے پبلش ایک رپورٹ ملی، جس کے مطابق…’کہا جاتا ہے کہ دیسائی نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک مکمل منصوبہ تیار کر لیا تھا اور پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ وہ اس بابت قرار کرنے والے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی خواہش تھی کہ اس کے لیے وہ بھارت دورے پر آئیں اور یہیں اس کا اعلان کیا جائے۔ یہ سب ہوتا، اس سے پہلے ہی بھارت میں دیسائی کی جنتا پارٹی والی حکومت گرا دی گئی۔ دونوں ملکوں کے تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر مسئلے پر اسلام آباد کے ساتھ ایک طویل مدتی اہم قرار کرنے کا یہ آخری موقع تھا، جس سے ملک چوک گیا‘۔
وہیں مرارجی کے وکی پیڈیا پیج اور روزنامہ جاگرن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1990 میں مرار جی دیسائی اور 1992 میں جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کو نشان پاکستان سے نوازا گیا۔ نشانِ پاکستان حکومت پاکستان کی طرف سے دیا جانے والا اعلیٰ ترین شہری اعزاز ہے۔
اس کے بعد ہم نے مزید کچھ مخصوص کی-ورڈ اور کی-فریز کی مدد سے انٹرنیٹ پر سرچ کیا۔ ہمیں ہیڈلائن،’خلاصہ: جب چندر شیکھر نے نواز شریف سے کہا تھا، کشمیر آپ کو دیا…‘ کے تحت اخبار امر اجالا کی جانب سے پبلش معروف صحافی اور سابق رکن پارلیمنٹ سنتوش بھارتی کی کتاب ’وی پی سنگھ، چندر شیکھر، سونیا گاندھی اور میں‘ پر مبنی ایک رپورٹ ملی۔
امر اجالا نے اپنی اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ 1991 میں وزیر اعظم بنتے ہی چندر شیکھر دولت مشترکہ ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے مالدیپ کے دارالحکومت مالے گئے تھے۔ وہاں ان کی ملاقات اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے ہوئی۔ چندر شیکھر نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، آپ بدمعاشی بہت کرتے ہیں۔ اس پر نواز شریف نے کہا کہ آپ بدمعاشی کی وجہ دور کر دیجیے۔ چندر شیکھر نے کھڑے کھڑے پوچھا، کیا وجہ ہے، میں دور کردیتا ہوں۔ نواز شریف نے کہا کشمیر ہمیں دے دیجیے، بدمعاشی دور ہو جائے گی۔
چندر شیکھر نے دس سیکنڈ تک نواز شریف کے چہرے کی طرف دیکھا اور کہا، کشمیر آپ کو دیا۔ نواز شریف کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ پھر دونوں ایک چھوٹے سے کمرے میں چلے گئے۔ نواز شریف نے پوچھا کہ کیسے آگے بڑھنا ہے؟ تو چندر شیکھر نے کہا، آپ کو ایک چھوٹا سا اعلان کرنا ہے کہ آپ کشمیر کے ساتھ ہندوستان کے 15 کروڑ مسلمانوں کو بھی لے رہے ہیں۔
امر اُجالا لکھتا ہے،’نواز شریف چونک گئے اور بولے، اس کا کیا مطلب؟ پھر چندر شیکھر نے انھیں سمجھایا، بھارت میں 15 کروڑ مسلمان ہیں، پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور زیادہ تر مسلمان دیہات میں رہتے ہیں۔ آپ جیسے ہی تعداد اور مذہب کی بنیاد پر کشمیر لیں گے، پورے ہندوستان کے دیہاتوں سے مطالبہ ہوگا کہ مسلمان یہاں اقلیت ہیں، انھیں یہاں سے نکالو۔ گاؤں گاؤں میں فساد شروع ہو جائے گا۔ میرے پاس اتنی پولیس اور فوج نہیں ہے کہ انھیں گاؤں گاؤں تعینات کر سکوں۔ آگے چندر شیکھر نے کہا کہ کشمیر ہندوستان کے لیے اقتصادی طور پر فائدے کا خطہ نہیں ہے۔ وہاں ہر چیز باہر سے بھیجنی پڑتی ہے۔ معاشی بوجھ بہت زیادہ ہے لیکن کشمیر ہندوستان کے لیے سیکولرزم کی زندہ علامت ہے۔ کشمیر ہمارے پاس ہے، یہ نہ صرف ہندوستان کے باقی مسلمانوں کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے، بلکہ یہ دنیا کو باور کراتا ہے کہ ہندوستان کا آئینی ڈھانچہ سیکولرزم کے اصول کو مانتا ہے اور سب کو یکساں طور پر رہنے اور ترقی کرنے کی گارنٹی دیتا ہے‘۔
چندر شیکھر نے پھر کہا، اگر آپ کشمیر کے ساتھ 15کروڑ مسلمانوں کو لے جانے کو تیار ہیں تو میں اعلان کر دیتا ہوں۔ نواز شریف خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے اپنے اپنے دفاتر میں ہاٹ لائن قائم کرنے کا مشترکہ فیصلہ کیا تاکہ مسئلہ پیدا ہونے پر وہ براہ راست بات کر سکیں۔
’جن ستا‘ سمیت دیگر میڈیا ہاؤسز نے بھی اسے کور کیا ہے۔
وکی پیڈیا پیج پر دی گئی معلومات کے مطابق، مشرقی اتر پردیش کے ضلع بلیا میں 1927 کو پیدا ہونے والے چندر شیکھر نے اپنی اسکول کی تعلیم بھیم پورہ کے رام کرن انٹر کالج سے حاصل کی۔ انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ وہ اسٹوڈنٹ پالیٹِکس میں ’فائر برانڈ‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ طالب علمی کے بعد وہ سوشلسٹ (سماج وادی) سیاست میں سرگرم ہو گئے۔
وہ 1962 سے 1977 تک ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ 1983 میں انہوں نے ہندوستان کی ’پد یاترا‘ (پیدل مارچ) کرکے ہندوستان کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کی۔ اندرا گاندھی کو اس ’پد یاترا‘ سے متعلق تھوڑی گھبراہٹ ہوئی۔ سنہ 1977 میں جب جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو وہ وزیر نہیں بنے بلکہ جنتا پارٹی کے قومی صدر کا عہدہ سنبھالا۔ 1977 میں، وہ پہلی بار ضلع بلیا سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔
نتیجہ
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے یہ واضح ہے کہ کشمیر لینے کے ساتھ، مکمل بھارتی مسلم آبادی کو بھی لینے کی بات مرارجی دیسائی نے نہیں بلکہ چندر شیکھر نے مالدیپ میں نواز شریف سے کہی تھی، لہٰذا سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: مرارجی دیسائی نے کہا تھا کہ کشمیر دیا مگر پوری ہندوستانی مسلم آبادی کے ساتھ
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: گمراہ کن