بہار سرخیوں میں ہے۔ یہ سوشل میڈیا سائٹس پر زبردست موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ اس درمیان وجے کمار جھا نامی یوزر نے فیس بک پر ایک پوسٹ لکھا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بہار ایک اسلامی ریاست ہے! بہار کی راج بھاشا اردو اس کی تصدیق کرتی ہے!بہار میں کوئی مگدھی نہیں ہے اور نہ کوئی متھیلا، میتھلی ہے۔
اس پوسٹ میں تصویر کے بیک گراؤنڈ میں رچناتمک جن مورچہ پارٹی کا بینر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
فیکٹ چیک:
آئینِ ہند کے مطابق ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، لہٰذا کسی بھی ریاست کے اسلامی ریاست ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اردو کے ہی بہار کی راج بھاشا ہونے کے دعوے کی جانچ۔پڑتال کے لیے، ہم نے کچھ ’کی ورڈ‘ کی مدد سے گوگل پر ایک سمپل سرچ کیا۔ اس دوران میڈیا کی طرف سے پبلش کئی رپورٹس ملیں۔
جاگرن جوش نے،’آئین ہند میں مذکور آفیشیل لینگویج کی فہرست‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بہار کی آفیشیل لینگویج کی فہرست میں اردو کے علاوہ میتھلی اور سنتھالی بھی شامل ہیں۔
مرکزی وزارت داخلہ کے تحت راج بھاشا کے محکمے کے تحت آئینِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل زبانوں میں اردو کے ساتھ ساتھ میتھلی اور سنتھالی بھی شامل ہیں۔
نتیجہ:
ڈی ایف آر اے سی کے اس فیکٹ چیک سے یہ واضح ہے کہ بہار کی راج بھاشا نہ صرف اردو ہے بلکہ میتھلی اور سنتھالی بھی اس فہرست میں شامل ہیں، لہٰذا یوزر کی جانب سے جو دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ غلط اور گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: بہار ایک اسلامی ریاست ہے کیونکہ اس کی راج بھاشا اردو ہے
دعویٰ کنندگان: وجے کمار جھا
فیکٹ چیک: گمراہ کن