سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے شوہر ہونے کی وجہ سے فیروز گاندھی، بھارتی سماج اور سوشل میڈیا پر ہمیشہ موضوعِ سخن بنے رہتے ہیں۔ فیروز گاندھی کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں ہیں اور بہت سے جھوٹے دعوے کیے جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک دعویٰ یہ ہے کہ فیروز گاندھی مسلمان ہیں۔
پشپندر کُلشریسٹھ نامی یوزر نے ٹویٹ کیا ،’مسلم سے شادی کرکے کرینہ کپور کے بچے مسلمان پیدا ہوئے.. تو فیروز خان سے شادی کرکے اندرا گاندھی کے بچے برہمن کیسے ہوئے؟‘ آرکائیو لنک
اسی طرح کئی دیگر یوزرس نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے۔
فیس بک پر کٹّر ہندو مہاکال نے ہوبہوو ہی پوسٹ کر کے اندرا گاندھی کے بچوں کے برہمن ہونے پر سوال کھڑے کیے ہیں۔
امت ہانڈا نے ایک طویل پوسٹ لکھ کر یہی دعویٰ کیا ہے۔ ہانڈا نے یہ بھی لکھا، ’’نہرو سے پہلے نہ کوئی نہرو تھا اور نہرو کے بعدکوئی نہرو ہوا!! لیکن نہرو خاندان کی
خواتین، خواہ کسی سے بھی شادی کریں وہ ’گاندھی‘ کو ہی جنم دیتی ہے‘۔
سوشل میڈیا پر ایسے یوزرس کی بڑی تعداد ہے جنہوں نے اسی سے ملتے جلدے دعوے کیے ہیں۔
فیکٹ چیک:
فیروز گاندھی کے مسلمان ہونے کے دعوے کی جانچ-پڑتال کے لیے، ہم نے کچھ ’کی ورڈ‘کی مدد سے گوگل پر ایک سمپل سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں مختلف میڈیا ہاؤسز کی طرف سے پبلش متعدد رپورٹس ملیں۔
وکی پیڈیا پیج کے مطابق اندرا گاندھی کے شوہر کا پورا نام فیروز جہانگیر گاندھی تھا، وہ ممبئی کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ فیروز گاندھی کے والد کا نام جہانگیر اور والدہ کا نام رَتیمائی تھا۔ مجاہد آزادی، فیروز گاندھی ایک ہندوستانی سیاست داں اور صحافی تھے۔
دینک بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق گاندھی جی نے فیروز کو ’گاندھی‘ سرنیم (کنیت) دیا تھا۔
فیروز گاندھی سے شادی کے بعد اندرا نے بھی ’گاندھی‘ سرنیم کا استعمال شروع کر دیا۔
بی بی سی ہندی کی رپورٹ کے مطابق ایک بار الہ آباد میں اندرا گاندھی کی والدہ کملا نہرو برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں کہ اچانک ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ فیروز گاندھی کالج کی دیوار پر بیٹھے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے فوراً کملا نہرو کو سنبھالا دیا، اس وقت فیروز گاندھی نے ان کا بہت خیال رکھا تھا۔ فیروز اکثر کملا نہرو کی خیریت جاننے کے لیے ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ اس طرح فیروز اور اندرا ایک دوسرے کے قریب آگئے۔
اندرا نے 1934-35 میں شانتی نکیتن میں داخلہ لیا ۔ یہ رابندر ناتھ ٹیگور ہی تھے جنہوں نے اندرا کو ’ پریا درشنی‘ کا نام دیا۔ پھر وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ چلی گئیں۔ یہاں فیروز گاندھی لندن اسکول آف اکنامکس میں پڑھ رہے تھے۔ اس دوران وہ اکثر فیروز گاندھی سے ملا کرتی تھیں۔
جواہر لال نہرو اندرا گاندھی کی شادی فیروز گاندھی سے کرنے کو تیار نہیں تھے لیکن گاندھی کی مداخلت کے بعد دونوں کی شادی الہ آباد میں ہوئی۔ شادی کے بعد دونوں کے درمیان کافی لڑائیاں بھی ہوئیں۔
اخبار، جن ستہ کی رپورٹ کے مطابق فیروز گاندھی نیشنل ہیرالڈ اور نوجیون جیسے اخبارات سے وابستہ تھے۔ جب فیروز گاندھی سیاست میں آئے تو 1952 کے پہلے عام انتخابات میں انہوں نے یوپی کی رائے بریلی سیٹ سے کامیابی حاصل کی۔ پھر وہ کئی بار اس سیٹ سے منتخب ہوئے۔
برسراقتدار پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ہونے کے باوجود انہوں نے 1956 میں ایل آئی سی-مندرا گھپلہ کو بے نقاب کیا۔ یہ مسئلہ انہوں نے اس زور و شور سے اٹھایا گیا کہ اس وقت کے وزیر خزانہ کو استعفیٰ دینا پڑا اور اس وقت کے وزیر اعظم ان کے سسر ،نہرو تھے۔
بی بی سی کی ایک دیگر رپورٹ کے مطابق فیروز گاندھی آزادیٔ اظہارِ خیال کے بڑے حامی تھے۔ اس وقت پارلیمنٹ کے اندر کچھ بھی کہا جا سکتا تھا لیکن اگر کسی صحافی نے اس بارے میں کچھ کہا یا لکھا تو اسے اس کی سزا دی جا سکتی تھی۔ اس مشکل کو ختم کرنے کے لیے فیروز نے ایک پرائیویٹ بل پیش کیا تھا۔ یہ بل جنتا حکومت کے دور میں قانون بن گیا، جسے فیروز گاندھی پریس لا ءکے نام سے جانا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ موجودہ پریس کلب انڈیا کبھی فیروز گاندھی کی رہائش گاہ ہوا کرتا تھا۔
نتیجہ:
ڈی ایف آر اے سی (DFRAC) کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ فیروز گاندھی پارسی تھے، مسلمان نہیں، لہٰذا سوشل میڈیا یوزرس کی طرف سے جو دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ جعلی اور گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: فیروز گاندھی مسلمان تھے (فیروز خان)
دعویٰ کنندگان: پشپیندر کُلشریسٹھ و دیگر سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: فیک