سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مندر کو بلڈوزر سے گرایا جا رہا ہے، جبکہ آس پاس کھڑی خواتین اور ’شردّھالو‘ مندر گرائے جانے کی وجہ سے رو رہے ہیں۔ اس ویڈیو کو شیئر کرنے والے یوزرس دعویٰ کر رہے ہیں کہ تمل ناڈو کی ڈی ایم کے حکومت نے ایک اور مندر کو گرا دیا ہے۔
اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے ایک یوزر نے لکھا ،’ڈی ایم کے حکومت کی جانب سے تمل ناڈو کےشہر کوئمبٹور کے کالاپٹی میں ایک اور مندر کو توڑ دیا گیا ہے۔ ’مندروں کی ریاست‘ کہلانے والے تملناڈو کے وزیر اعلیٰ نے جو خود عیسائی ہیں، ریاست کے ایسے کئی بڑے اور پرانے مندر منہدم کر دیے ہیں۔ عورتیں رو رہی ہیں۔ رونے کے سوا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے ان کے پاس۔ دیکھیے!‘
وہیں اس ویڈیو کو کئی دیگر یوزرس کی جانب سے بھی شیئر کیا گیا ہے۔
فیکٹ چیک:
وائرل ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لیے ہم نے گوگل پر کچھ ’کی ورڈس‘سرچ کیے۔ ہمیں انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کی ویب سائٹ پر پبلش ایک رپورٹ ملی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مندر کو مدراس ہائی کورٹ کے حکم کے بعد توڑا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی قبضے کی وجہ سے وہاں 50 فٹ چوڑی ویریامپلیم سڑک متاثر ہو رہی تھی، جس کے بعد ایک مقامی شہری کی شکایت پر مدراس ہائی کورٹ نے غیر قانونی قبضے کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
وہیں جب ہم نے تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن کے مذہب کے بارے میں گوگل پر سرچ کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ اسٹالن خود کو دہریہ (ایتِھسٹ) مانتے ہیں۔
نتیجہ:
ہمارے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مندر کو منہدم کیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ وہ ہائی کورٹ کے حکم پر کارروائی کر رہے ہیں، لہٰذا سوشل میڈیا یوزرس کی جانب سے کیا جا رہا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: تمل ناڈو کے عیسائی اسٹالن نےمنہدم کروایا شیو مندر
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: گمراہ کن